واشنگٹن: مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے شہری زندگی خاص طور پر مذہبی اقلیتوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کے لیے اپنی اعلیٰ تکنیکی نگرانی برقرار رکھی ہے اور 2019میں چین میں مذہبی آزادی کی صورت حال خراب ہونا جاری ہے۔
آزاد ماہرین کے ایک تخمینہ کے مطابق ژن جیانگ کے 1300 سے زاائد کنسنٹریشن کیمپوں میں 9لاکھ سے18لاکھ کے درمیان ایغور، قزاق ،کرغیز اور دیگر مسلمانوں کو ڈالا جا چکا ہے۔جو کہ گذشتہ اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔
چین میں لمبی ڈاڑھی رکھنے والے، شراب نوشی سے انکار کرنے والے اور دیگر ایسے معاملات سے ،جنہیں حکومت مذہبی انتہاپسندی کے زمرے میں شمار کرتی ہے، رو گردانی کرنے والے لوگوں کو ان کمیپوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں چین پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے صرف مسلمانوں پر ہی نہیں تبتی بودھوں اور عیسائیوں پر بھی اسی وسم کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ چینی حکومت تبتی بودھوں کو جبراً اپنے اندر ضم کرنے اور ان کو کچلنے کے راستے پر چل رہی ہے۔جو مقدس دلائی لامہ کی آئندہ تاجپوشی کا معاملہ اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے قوانین سے ظاہر ہوتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے چینی حکام نے 2019میں ہنان صوبہ کے راک چرچ اور بیجنگ کے شوانگ چرچ سمیت سیکڑوں پروٹسٹنٹ گرجا گھروں پر چھاپے مارے یا انہیں بند کر دیا ۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے پورے چین میں گرجا گھروں سے صلیبوں کو ہٹا دیا،18سال سے کم عمر کے بچے بچیوں کے مذہبی کاموں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی اور عیسیٰ مسیح یا بی بی مریم کی تصاویر کی جگہ صدر ژی جن پینگ کی تصویر لگا دی۔