کاشغر(چین): چین کے مغربی سین سیانگ خطہ میں ہوائی اڈے پر سامان اٹھانے سے پہلے درجہ حرارت ماپنے والے ناکہ پر قانون نافذ کرنے وا لوں کی پہلی جوڑی انتظار کر رہی تھی۔انہوں نے پوچھا ’پاسپورٹس“کیونکہ اس مہینے تین غیر ملکی صحافی گھریلو پرواز سے بیجنگ سے آئے تھے۔
یہ معلوم کیے جانے پر کہ ہمیں ایک طرف کیوں کیا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ماسک پہننے ہیں کیونکہ اس سال جولائی میں سین سیانگ میں کورونا وائرس مرض پھیلا تھا ۔ہم ماسک پہن رہے تھے۔
انہوں نے ہمارے معلوماتی کاغذات اور جرنلسٹ ویزوں کی تصویریں اتاریں۔ سخت تعاقب اور ہماری رپورٹنگ میں رخنہ ڈالنے اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ مقامی لوگوں کو اتنا ڈرا دیا جائے کہ وہ ہم سے بات ہی نہ کر سکیں، مہمل چوکیوں سے استقبال ہمارے چار روزہ دورے کا آغاز تھا۔
ہونڈا 25، وی ڈبلیو 65کاریں ہمہ وقت ہمارے تعاقب میں تھیں۔ہم ان کاروں کی نمبر پلیٹوں پر نظر ڈالتے تھے تو ہماری آنکھیں چکاچوند ہو جاتی تھیں اور وہ ”کی اسٹون کوپس“ ہمارا تعاقب کرتے ہوئے کسی بہانے جھاڑیوں کے پیچھے چھ پر اپنے فونوں پر بات کرتے تھے۔
پبلک سیکورٹی بیورو کے دو عہدیدار ”مائیکل“اور ”اسمتھ“ تھے جنہوں نے ہمیں ہوٹل لابی میں بلایا اور ہمیں مقامی رپورٹنگ قواعد و ضوابط کا احترام کرنے کی تاکید کی جس کے تحت ہمیں کسی سے بھی انٹرویو کرنے کے لیے اس سے اجازت لینا ہو گی۔
ایشیا میں دس سال کے بعد کاشغر کا سفر میری آخری صحافتی مہم تھی۔لیکن وہان مجھے ایسا محسوس نہیںہوا کہ میںچین میں ہوں بلکہ ایسا لگاکہ میں شمالی کوریا میں ہوں۔ایغور ثقافت کا یہ دی ہیکل شہر،جو کسی دور میں سلک روڈ پر ٹہرنے کا ایک مقام ہوا کرتا تھا، پیونگ یانگ کی مانند پوٹیم کن گاؤں میں بدل گیا تھا۔
جہاں یہ سمجھنا مشکل تھا کہ اس کا سرا کہاں ہے اور کہاں سے شروع ہوتا ہے۔میں2006میں کرخزستان کی سرحد پار کر کے ایک سیاح کے طور پر کاشغر آیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ کاشغر ایغور وں کا، جو اپنے خد و خال سے وسطی ایشیائی لگتے ہیں اور عربی رسم الخط والی ترک زبان بولتے ہیں،ایک طلسماتی مقام ہے۔ (جاری)
