ریاض: کشمیر معاملہ پر تنظیم اسلامی ممالک (او آئی سی) کو تقسیم کر نے کے لیے عمران حکومت کی دھمکی کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو ادھار تیل دینا روک دیا۔قرض پیکج میں مذکور ایک شرط کے تحت سعودی عرب پاکستان کو سالانہ 3.2بلین ڈالر کا تیل ادھار دیا کرے گا۔ یہ قرض حسنہ تو نہیں تھا ہاں البتہ پاکستان کو یہ رعایت تھی کہ جب بھی اسے سہولت ہو وہ اس تیل کی ادھاری چکا دے۔
ہفتہ کے روز پاکستانی میڈیا نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ رعایت دو ماہ پہلے ہی ختم ہو گئی تھی اور سعودی عرب نے اس کی تجدید نہیں کی تھی۔ایکسپریس ٹریبون نے ذرائع اور پیٹرولیم ڈویژن کے ترجمان ساجد قاضی کے حوالے سے کہا کہ پاکستان نے قبل از وقت یعنی واپسی ادا کرنے کے دورانیے سے چار ماہ پہلے ہی ایک بلین ڈالر کا قرض سعودی عرب کو لوٹا دیا تھا۔سخت اقتصادی بحران میں مبتلا پاکستان نے 2018میں سعود عرب سے 6.2بلین ڈالر قرض لیا تھا۔
واضح ہو کہ گذشتہ دنوں ایک ٹاک شو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے غیر معمولی طور پر نہایت تلخ لہجہ اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب قیادت والی تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی ) کو سخت انتباہ دیا تھاکہ کشمیر پر وزراءخارجہ کی کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں لیت لعل سے کام نہ لے۔ وزیر خارجہ نے او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ ایک بار پھر بصد احترام او آئی سی سے کہہ رہے ہیں کہ وزراءخارجہ کی کونسل کا اجلاس طلب کیا جائے ۔اگر آپ اجلاس نہیں بلا سکتے تو مجھے وزیر اعظم سے یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑے گا ان اسلامی ممالک کا ،جو کشمیر معاملے پر ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور ستم رسیدہ کشمیریوں کی حمایت کرتے ہیں،اجلاس بلائیں۔
مسٹر قریشی نے کہا کہ اگر او آئی سی وزراءخارجہ کونسل کا اجلاس نہیں بلاتی ہے تو پاکستان او آئی سی سے باہر کوئی بھی اجلاس بلانے کے لیے تیار ہے۔ جب سے ہندوستان نے گذشتہ سال اگست میںآرٹیکل 370کی تنسیخ کر کے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے پاکستان مسلم ممالک کے 57رکنی بلاک کی ، جو کہ اقوام متحدہ کے بعد سے سے بڑی عالمی تنظیم ہے ،وزراءخارجہ کونسل کا اجلاس کا مطالبہ کر رہا ہے۔اس سے قبل مسٹر قریشی نے کہا تھا کہ گذشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پر پاکستان نے کولالمپور سربراہ اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی اور اب پاکستانی مسلمان سعودی عرب سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس معاملہ پر وہ اپنی قیادت کا مظاہرہ کرے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ”ہمارے اپنے احساسات و جذبات ہیں ۔آپ کو انہیں سمجھنا ہوگا۔ خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہئے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اب سفارتی نزاکتوں اور آداب میں زیادہ نہیں الجھیں گے۔مسٹر قریشی نے کہا تھا کہ وہ قطعی طور پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر یہ سب نہیں کہہ رہے بلکہ اپنے بیان کے مضمرات سے مکمل طور پر واقف ہیں۔ہم کشمیریوںکی حالت زار پرمزید خاموش نہیں رہ سکتے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکعر ہے کہ دنیا میں اسلامی ممالک کے سب سے گروپ او آئی سی بارہا پاکستان کی یہ درخواست مسترد کر چکا ہے کہ وہ ہندستانی کشمیر پر اجلاس بلائے۔اور خاص طور پر 5اگست2019کو جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ370کی تنسیخ اور ریاست جموں و کشمیر کو دو مرکزی علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں منقسم کرنے کے بعد سے عمران خان کی حکومت کا او آئی سی پر دباؤ اور برھ گیا تھا کہ وہ کشمیر پر اجلاس طلب کرے۔