مرد کی طاقت اور اور اس کا بے رحمانہ اظہار عام زبان میں کھانے کی تیلیاں ثقافت(چینی کانٹا ثقافت)کا مرکزی خیال ہے۔اس کا اظہار مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی معاشرے خاص طور پر قرون وسطیٰ کی سلطنت میں، جس پر آج شہنشاہ شی جن پینگ کی بادشاہت ہے ،اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پیش کی جارہی ہے۔ یہاں اکسائے چن علاقہ میں ، جہاں سابق ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے1961کے مشہور بیان کے مطابق گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں اگتا،ہندوستان کے خلاف چین کی جارحیت کے سیاق و سباق میں اس ثقافت کو سمجھنا نہایت اہم ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایک عام آدمی کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے کہ کمانڈر انچیف شی جن پینگ نے اپنے مغربی تھیٹر کمانڈر کو حقیقی کنٹرول لائن تک پوری طاقت کے ساتھ پیپلز لبریشن آرمی کو مارچ کرنے اور ٹیسٹو اسٹیرون کی اضافی خوراک دے کر 30سالہ تعلقات منقطع کر لینے کا کیوں حکم دیا ہوگا۔
آخر وزارت خارجہ کے مشرقی ایشیا ڈویژن میں ”چینی لڑکوں “ کی اکثریت سب سے برتر لیڈر ماو¿زے تنگ کے احمقانہ نعرے اور مستقبل کے پڑھنے کے فن کے گرویدہ ہیں۔ کیوں ایک ملک ایک ایسے پڑوسی سے جس نے کبھی اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی اس کی عالمی چودھراہٹ پر سوال اٹھایا ،100ملین ڈالر کے اقتصادی تعلقات برباد کر ے گا ۔حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اس امر سے واقف ہونے کے باجود کہ نیپال، (جہاں چینی سفیر متعین کٹھمنڈو اصل وائسرائے ہیں)، پاکستان، میانمار، سری لنکا ، افغانستان اور بھوٹان کی خوشحال سلطنت میںچین کی ریشہ دوانیاں چل رہی ہیں خاموش رہنے کو ترجیح دی۔اس سوال کا جواب کافی پیچیدہ اور تہذیبی ہے ۔چینی شہنشاہ چاہتے رہے ہیں اور اب بھی چاہتے ہیں کہ انہیں خدااور تمام حکمت سے بالاتر سمجھا جائے۔
جب چین کی بحریہ نے جاپان کی بحری حدود کی خلاف ورزی کی تو اس نے سین کاکو جزیرہ تنازعہ دکھا کر ایک لفظ منھ سے نہیں نکالا۔ ویتنام بھی اس وقت خاموش ہی رہا جب چین نے بحریہ جنوبی چین میں اس کی کشتی ڈبو دی۔ آسیان کے کچھ ممالک نے بحیرہ جنوبی چین میں پیپلز لبریشن آرمی کی فوجی مشقوں پر امریکہ سے مدد چاہی۔مختصر یہ کہ ایک دو کو چھوڑ کر مشرقی ایشیائی اور جنوب مشرق ایشیائی اقتصادی طاقتیں غلبہ والی طاقت اور اس کے برتر لیڈر کی خدمت میں کورنش بجا لائیں۔یقیناً کوئی ا تسکین بخش احتجاجی بیان جاری کرے گا اور اسی پر اکتفا کرے گا۔
یہ صاف ظاہر ہے کہ پیپلز لبریشن آرمی کے فوجیوں کی دریائے گلوان وادی سے شیوک دریا تک پیشقدمی اور پانگگونگ ٹیسو میں ہندوستانی فوج کو ہٹانے کی کوشش کے بعد صدر شی اور جنرل ژاؤ زونگی ہندوستان سے بھی کچھ اسی قسم کی کارروائی کی توقع رکھتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ہندوستان بھی ایسا ہی رول ادا کرتا جیسا 2017کے ڈوکلم بحران کے وقت کیا تھا لیکن پھر کرنل سنتوش بابو اور ان کے جیالے بہاریوں نے سن ٹو سے چانکیہ اور چینی گیم گو سے ہندوستانی شطرنج تک سارا کھیل بدل دیا۔کرنل نے قرون وسطیٰ کی سلطنت کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا اور دکھا دیا کہ وہ برصغیر ہند کی دوسری قدیم ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ کرنل بابو اور ان کے جیلاوں کی عظیم قربانی ہے جس نے ہندوستانی فوج اور ہندوستانی عوام کو چینی جارحیت کے خلاف بیدا رکر دیا۔کرنل بابو نے15جون کو گلوان میں چینی خون بہا کر کھیل ہی بدل دیا کیونکہ 1967میں ناتھو لا کے بعد پہلی بار پیپلز لبریشن آرمی کے فوجی مارے گئے ہیں۔
جہاں ایک جانب ہندوستانی فوجیوں کے آخری رسوم پورے اعزاز کے ساتھ ادا کیے گئے اور جن کے آخری رسوم کی ادائیگی میں عوام نے کورونا وائرس وبا کے باوجود کثیر تعدا د میں شرکت کی وہیں دوسری طرف گلوان میں جو17 چینی فوجی ہلاک ہوئے اور انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق یہ تعداد 56تک ہو سکتی ہے خاموشی کے ساتھ ٹھکانے لگا دیا گیا۔وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے عوام کا موڈ دیکھا اور چین کے خلاف ہنگامی جوابی اقتصادی اقدامات کر دیے۔چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور فوجی سربراہ جنرل مکند نروانے کے جلو میں وزیر اعظم مودی نے بہ نفس نفیس نیمو لداخ پہنچ کراپنے عزم کا اظہار کیا اور فوجیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی بہادری کی مدح سرائی کی ۔ جب قومی سلامتی کے مشیر اور سرحدی مذاکرات کے لیے نمائندہ خصوصی اجیت دووال اور ان کے چینی ہم منصب وانگ یی نے لداخ میں فوجوں کی واپسی پر اتفاق کر لیا ہے ہندوستان کو چاہئے کہ وہ پورے عمل کی ہوشیاری سے نگرانی کرے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ جوں کی توں صورت حال بحال ہو گئی ہے ۔
چین کو اب حقیقی کنٹرول لائن پر کوئی نئی حرکت نہ کرنے دی جائے۔ قرون وسطیٰ کی شہنشاہیت کے رویہ میں تبدیلی آنا یقینی بنانے کے لیے ہندوستان کو آئندہ پانچ سالوں کے دوران فوجی اور اقتصادی رخنہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔تیندوا اپنے پیروں کے نشانات نہیں بدلتا لیکن ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ وہ دوبارہ حملوں سے پہلے ہزار بار سوچے۔3488کلومیٹر ایل او سی پر صورت حال ہنوز پیچیدہ ہے اور کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔ہندوستان اس یقین کے ساتھ کام کرنا چاہئے کہ مستقبل قریب میں چین کے شہنشاہ کا احترام کرنے کے مطالبہ کے ساتھ شی جن پینگ کے تحت پیپلز لبریشن آرمی ایل اے سی پر پھر واپس آئے گی ۔