UN official says 38 aid workers killed in two years in Afghanistanتصویر سوشل میڈیا

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی حقوق( او سی ایچ اے )کے کوآرڈینیٹر ڈینیئل اینڈریس نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران 38 امدادی کارکن مارے گئے ہیں۔ ڈینیئل اینڈریس نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر افغانستان میں پولیوکی خوراک پلانے والے اور بارودی سرنگیں ناکارہ اور بے اثر بنانے والے کارکنان شامل تھے۔ ڈینیل اینڈریس نے کہاکہ ہم ان کے حوصلے کو سلام پیش کرتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کے لیے ان کی لگن کا جشن مناتے ہیں، ہم ان انسانی ہمدردی کے کارکنوں کو جو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور زخمی ہوئے، اغوا کیے گئے، گرفتار کیے گئے یا قید یا نظربند رہے، سلام پیش کرنے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کرتے ہیں۔

انہوں نے ا مزید کہا کہ پچھلے دو سالوں کے دوران 38 کارکنان ہلاک ہوئے جن میں سے اکثر پولیو کے قطرے پلانے والے اور بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے والے کارکنان شامل تھے۔ایک فوجی تجزیہ کار اسد اللہ ندیم نے کہا کہ طالبان حکومت پر، جو اس وقت اقتدار میں ہے، قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امدادی کارکنوں اور ان لوگوں کے تحفظ کو جو افغانستان کے لوگوں میں امداد تقسیم کرنے میں مصروف ہیں ،کا تحفظ یقینی بنائیں۔ افغانستان میں انسانی امداد کے لیے فنڈز کی کمی کے باوجود گذشتہ سال اقوام متحدہ کے ملازمین نے افغانستان کے 401 اضلاع میں 26 ملین سے زائد لوگوں کو انسانی امداد فراہم کی۔

ڈینیل انڈریس نے کہا کہ افغانستان میں انسانی امداد کے 29ملین ضرورت مندوں کو امداد بہم پہنچائی گئی ہے۔ امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انسانی امداد کے کوآرڈینیٹر کے تبصرے کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امدادی کارکنوں کو امارت اسلامیہ کی حمایت،مدد و تحفظ سب کچھ حاصل ہے۔ مغربی ادارے افغانستان کو غیر محفوظ خطہ کے طور پر پیش کرنے کے لیے ایک دوسرےکے سر میں سر ملا رہے ہیں اور زبردست ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی افغانستان مخالف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا پروپیگنڈا دروغ گوئی پر مبنی ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغان گواہ ہیں، اور ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ امدادی کارکنوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔فروری 2022 میں شمالی صوبوں قندوز اور تخار میں نامعلوم بندوق برداروں نے الگ الگ وارداتوں میں8 ہیلتھ ورکرز بشمول چار خواتین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *