قادر خان یوسف زئی
افغانستان کی موجودہ آبادی تقریباََ تین کروڑ 40لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ افغان آزاد الیکشن کمیشن کے مطابق95لاکھ افراد بطور ووٹر رجسٹرڈ ہیں ، 06ماہ قبل صدارتی انتخابات میں 18امیدواروں نے حصہ لیا ، بعدازاں حنیف اتر سمیت تین امیدوار انتخابات سے دستبردار ہوگئے جبکہ گلبدین حکمت یار نے انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھانے کے باوجود حصہ لیا تاکہ افغان عوام سے رابطے میں رہنے کا موقع مل سکے ۔ امارات اسلامیہ افغانستان نے انتخابات سے بائیکاٹ کیا اور عوام کو الیکشن سے دور رہنے کی ہدایت کی ۔ 09مارچ کے دن افغانستان کی دو سو برس پرانی تاریخ دوہرائی گئی جب ایک ملک کی سربراہی کے لئے دو شخصیات نے الگ الگ حلف اٹھایا۔حالیہ افغان انتخابات کو متنازع قرار دیا گیا اور غیر جانبدار حلقوں نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھایا۔ 28ستمبر2019کو ہونے والے صدارتی انتخابات کا ٹرن آﺅٹ ملکی تاریخ کا کم ترین سطح پر تھا۔ الیکشن کے انعقاد کے پانچ ماہ بعد نتائج کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق 18 لاکھ ووٹ کاسٹ ہوئے تھے، اشرف غنی نے نو لاکھ ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جو کہ پانچ فیصد بنتا ہے، جبکہ ڈاکٹر عبداللہ نے سات لاکھ سے زیادہ ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی، اس اعلان کے بعد ملک میں انارکی پھیل گئی، تمام امیدواروں اور اہم شخصیات نے الیکشن نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا، ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ 15 لاکھ بائیومیٹرک ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں جن کے مطابق وہ ملک کے منتخب صدر بن گئے ہیں جبکہ تین لاکھ غیر بائیو میٹرک ووٹ کو مسترد کر دیا جائے، حامد کرزئی سمیت دیگر سیاستدانوں نے بھی الیکشن کے نتائج کو مسترد کر دیا۔ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے متعدد گورنروں کی تعیناتی کے احکامات تک جاری کرنا شروع کردیئے ۔
دو سو سال قبل بھی بیک وقت دو حکمران گزرے تھے ،افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1818 میں وزیر فتح خان کے قتل کے بعد محمد زئی اور سدوزئی کے شہزادوں کے مابین ایک تنازعہ پیدا ہوا تھا، محمد زئی کے بھائیوں نے سدوزئی کے حکمرانوں شاہ محمود اور کامران کو شکست دی اور کابل سمیت متعدد علاقوں پر اپنا کنٹرول حاصل کیا، محمد زئی کے بھائیوں نے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی، ان میں سردار عظیم خان اور امیر دوست محمد خان شامل تھے۔ لیکن انہیں بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان کے لوگ اصل حکمران احمد شاہ بابا کے پوتے (سدوزئی) کوسمجھتے تھے اور محمدزئی کو غاصب کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اس لئے عظیم خان اور دوست محمد خان نے احمد شاہ بابا کے خاندان میں سے کسی کو ظاہری بادشاہ کی حیثیت سے برقرار رکھنے کا منصوبہ بنایا۔اس منصوبے کے تحت عظیم خان نے تیمور شاہ کے بیٹے ایوب شاہ کو راضی کیا کہ وہ بادشاہ بنیں گے، جبکہ امیر دوست محمد خان نے شاہ زمان کے بیٹے سلطان شاہ کو منایا کہ انہیں بادشاہ مقرر کریں گے، دراصل عظیم خان اور دوست محمد خان اختیارات کا سرچشمہ تھے جبکہ بظاہر ایوب شاہ اور سلطان شاہ حکمران بن گئے، ہر ایک نے اپنے آپ کو حکمران بنایا اور بادشاہ کے محل (بالا حصار) میں مسند اقتدار پر بیٹھ گئے، ایوب شاہ اور سلطان شاہ جو کزن اور بھتیجے تھے، بظاہر حکمران تھے لیکن عملی طور پر ان کا کوئی اختیار نہیں تھا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں بادشاہ بالا حصار کے ایک محل میں رہتے تھے، ایوب شاہ اور سلطان شاہ خود کو خودمختار بادشاہ سمجھتے تھے اور آپس میں جھگڑا بھی کرتے تھے لیکن پس پردہ خودمختار بادشاہ عظیم خان اور دوست محمد خان تھے جو اپنی طاقت کو وسعت دینے کے لئے شاہی محل کے باہر لڑتے رہے۔ عظیم خان نے سازش کا منصوبہ بنایا اور اپنے ماتحت بادشاہ ایوب شاہ سے کہا کہ وہ سلطان شاہ کو قتل کریں جبکہ میں دوست محمد خان کو قتل کروں گا تاکہ مکمل بادشاہ بن جائیں۔اس سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایوب شاہ کے بیٹے اسماعیل خان چپکے سے سلطان شاہ کے کمرے میں گیا، وہ سو رہا تھا جس کو موقع پر مار دیا گیا، ایوب شاہ خوش ہوئے اور عظیم خان سے کہا کہ اب اپنے بھائی دوست محمد خان کو مار دینا چاہئے لیکن عظیم خان نے دوست محمد خان کو مارنے سے انکار کر دیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ آخر کار ایوب شاہ اور عظیم خان کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا، اور چند دن کے بعد عظیم خان نے ایوب شاہ کو شاہی محل سے نکال دیا، ان کی توہین کی گئی، ایوب شاہ بھی شاہ شجاع کی طرح ہندوستان فرار ہوگئے اورسکھوں کے ماتحت پناہ حاصل کی۔
ایک بار پھر افغانستان میں تاریخ دوہرائی گئی، گذشتہ انتخابات میں اقتدار کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ، اشرف غنی صدر تو عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو بنا دیئے گئے ، لیکن حالیہ انتخابات میں دونوں شخصیات نے صدر بننے کا اعلان کیا اور27 فروری 2020کو اشرف غنی و ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے حلف اٹھانے کا اعلان کردیا ، تاہم امریکی صدر کے خصوصی معاون برائے افغانستان امور زلمے خلیل زاد کے کہنے پر 09مارچ تک تقریب حلف برداری ملتوی کردی گئی ، کیونکہ29فروری2020کو امریکا اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کا باقاعدہ اعلان کردیا گیاتھا ۔ چونکہ تفصیلات سامنے آچکی تھی کہ 10مارچ کو بین الافغان مذاکرات میں افغانستان کے سیاسی مستقبل ، تشدد میں کمی ، مکمل جنگ بندی سمیت اہم امور پر افغانستان کے اہم رہنماﺅں کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ، لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی اور اشرف غنی نے دوحہ معاہدے کے مطابق 5000افغان طالبان کے قیدیوں کو معاہدے کے مطابق رہا کرنے سے انکار کردیا ، اشرف غنی کا واضح مقصد تھا کہ امریکا کے بعد افغا
ن طالبان اب کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئیں، حالاں کہ لائحہ عمل یہ طے گیا تھا کہ بین الافغان مذاکرات ہوں گے ، یہی وجہ تھی کہ 10 مارچ سے قبل صدارتی عہدے کا حلف اٹھالیاگیا۔ ذرائع کے مطابق مارچ سے قبل زلمے خلیل زاد نے اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے درمیان مصالحت کی بہت کوشش کی، 8 مارچ کو خلیل زاد نے چھ بار اشرف غنی اور عبداللہ سے ملاقات کی لیکن ان کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں اور 9 مارچ کو کابل میں اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ نے حلف برداری کے الگ الگ پروگرام منعقد کئے، حلف برداری کی تقریب کا وقت صبح نو بجے رکھا کیا تھا تاہم ناگزیر وجوہات کی بناءپر سہ پہر کو یہ تقریبات منعقد کی گئیں، اشرف غنی نے ایوان صدر میں فارسی زبان میں جبکہ ڈاکٹر عبداللہ نے سپیدار میں پشتو زبان میں بیک وقت حلف اٹھایا،اشرف غنی نے افغانستان میں قیام امن کے لئے کی جانے والی کوششوں میں رخنہ ڈالنا چاہا ، لیکن سب بخوبی آگاہ تھے کہ امریکا کے بغیر اشرف غنی کچھ بھی نہیں ۔اس لئے اشرف غنی نے مرحلہ وار افغان طالبان کے قیدیوں کی رہاکرنے کا اعلان کردیا ۔ جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے امن معاہدے کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اقتدار سمیت ہرقسم کی قربانی دینے کاعندیہ دیا ۔ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی تقریب حلف برداری اس لحاظ سے منفرد رہی کہ وہاں نعرہ تکبیر ، امریکا مُردہ باد سمیت اسلام زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ واضح رہے کہ حامد کرزئی، گل بدین حکمت یار، یونس قانونی سمیت اہم شخصیات نے کسی کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔
امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے ڈائریکٹر عبدالاحد جہانگیروال نے دوحہ معاہدے کی تقریب کے حوالے سے بتایا کہ تقریب میں قریب 30 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے مندوبین شریک ہوئے، قطر میں تمام غیر ملکی سفیروں کو بھی مدعو کیا گیاتھا ۔ تقریب میں سرکاری سطح پر 200 کے لگ بھگ مہمانوں نے شرکت کی جن کے لئے نشستیں مختص کی گئی ہیں جبکہ امارت اسلامیہ کے 50 کے قریب ممبران بھی اس تقریب میں شریک ہوئے اور کچھ قطر میں مقیم افغانی اور دانشور بھی اس تاریخی تقریب کے مہمان بنے ۔ یہ تقریب کوئی رسمی سمینار نہیں تھا ، اس تقریب میں افغانستان کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اور یوناما کے سربراہ تادامیچی یاماموٹو، افغانستان کے لئے جرمنی کے خصوصی نمائندے مارکوس پوٹزیل، برطانوی خصوصی ایلچی گارٹ بیلی، روسی خصوصی ایلچی ضمیر کابولوف اور متعدد دیگر ممالک کے نمائندے اور سیاسی رہنما بھی اجلاس میں شریک ہوئے ، اشرف غنی سمیت افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈر اس اَمر سے بخوبی آگاہ تھے کہ عملی طور پر امریکا ہی افغانستان کے تمام معاملات پر عمل دخل کا اختیار رکھتا ہے ، امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ میں نے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو قطر میں امریکہ اور طالبان کے مابین مفاہمت کی تقریب میں شرکت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر طالبان اور حکومت اپنے وعدوں پر قائم رہے تو افغانستان میں امن قائم ہوگا۔ ہم افغانوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس موقع کو تقویت بخش سمجھے اور دیرپا امن کے لئے کام کریں۔ سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ صدارتی انتخابات اور افغان طالبان کا مینڈیٹ ’ عارضی جنگ ‘ کی صورت میں عالمی برداری کے سامنے آچکا تھا کہ افغانستان کے سیاسی رہنماﺅںکے مقابلے میں افغان طالبان میں اتحاد پایا جاتا ہے اور انہیں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے پر بھی اختلاف کا سامنا نہیں ہے۔ جب کہ امارات اسلامیہ نے جن جن علاقوں ( اضلاع ) میں اپنے کنٹرول کا دعویٰ کیا تھا ، وہاں کوئی شورش برپا نہیں ہوئی اور امارات اسلامیہ کے کسی رہنما نے معاہدے پر عدم اطمینان کا اظہار تک نہیں کیا ۔ جب کہ اُن کے مقابلے میں افغانستان کی تمام سیاسی جماعتیں و گروپ منتشر نظر آئے اور امریکی افواج کی باقاعدہ روانگی کے منظر کو دیکھنے کے بعد انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ۔ اشرف غنی نے پاکستان کو مشتعل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ تاہم پاکستان نے تحمل و بردباری کا مظاہرہ کیا ۔ ملا عبدالسلام ضعیف کے ایک ویڈیو پیغام کو منفی پیرائے میں غلط فہیماں پیدا کرنے کی کوشش کی ، لیکن پاکستان کے ریاستی اداروں نے افغانستان میں قیام امن کے مستقبل کو مستحکم بنانے کے لئے برداشت و کمال ضبط سے کام لیا۔پاکستان اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ تاریخ کی طویل جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا گیا اور امارات اسلامیہ کی عسکری اور سیاسی قوت کو تسلیم کر کے ان کے ساتھ معاہدہ امریکا نے کیا ہے۔
امن معاہدے میں بین الافغان ڈائیلاگ کا واضح منصوبہ شامل ہے، معاہدے میں افغانستان کے جاری بحران کے دیرپا حل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، اس معاہدے میں کافی صراحت موجود ہے کہ بحران کے حل کے لئے کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے؟ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ یکم مارچ سے لیکر 10 تاریخ تک امارت اسلامیہ اور کابل انتظامیہ کی جیلوں میں 6 ہزار قیدیوں کا تبادلہ کرنا چاہئے تاکہ فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کر کے ماحول کو سازگار بنایا جائے اور اس کے بعد دس مارچ کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔لیکن بدقسمتی سے کابل انتظامیہ نے معاہدے سے روگردانی کی اور10مارچ سے قبل بین الافغان مذاکرات کے مثبت انعقاد کے بجائے تلخی پیدا کردی۔ افوہو ں کا بازار گرم ہوا۔ عبداللہ عبداللہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔ تو دوسری جانب مبینہ طور پر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری کے وقت راکٹوں کے حملوں سے فضا گونج اٹھی ۔ لیکن دونوں واقعات سے امارات اسلامیہ نے لاتعلقی کا اعلان کیا ۔ جبکہ داعش خراسان نے حملوں کی ذمے د
اری قبول کی۔
بین الافغان مذاکرات کے راستے میںبظائر اشرف غنی حائل نظر آتے ہیں ، انہوں نے پہلے جارحیت کے خاتمے کی خلاف ورزی کی اور جس وقت افغانستان میں امن معاہدے پر جشن کا سماں تھا ، اسی وقت اشرف غنی کے نائب امیر اللہ صالح نے قومی ٹیلی ویژن کے ساتھ ایک انٹرویو میں جنگ کو جاری رکھنے، فوجی اور انٹیلی جنس کارروائیوں کو بند نہ کرنے کا عندیہ دیا۔اشرف غنی جنہوں نے کئی ماہ سے پریس کانفرنس نہیں کی تھی، معاہدے کے ایک دن بعد یکم مارچ کو انہوں نے ہنگامی طور پر اہم پریس کانفرنس کا اعلان کیا، انہوں نے پریس کانفرنس سے قبل یہ تاثر دیا کہ وہ نہایت اہم موضوع پر پریس کانفرنس کریں گے۔ انہوں نے اس نیوز کانفرنس میں قطر معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہ امن معاہدے کے مطابق قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے، یہ ہماری حکومت کا اختیار ہے، اس میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، اشرف غنی جنہوں نے ماضی میں امریکہ کے مفاد کے لئے واشنگٹن کے تمام احکامات کو تسلیم کیا تھا، اس بار انہوں نے قیدیوں کے تبادلے کی کھل کر مخالفت کی، کیونکہ اس بار امن اور افغانستان کے مفادات کی باری آئی تھی، اشرف غنی کی اس مخالفت نے امن اور مفاہمت کی فضا کو مخدوش کر دیا اور افغان عوام میں بھی بے چینی پیدا ہوئی اور ہر طرف سے ان پر شدید تنقید شروع ہو گئی۔غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے اشرف غنی کی پریس کانفرنس کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ اقدام امن عمل کی واضح مخالفت ہے لیکن یہ سوال بھی کیا کہ اشرف غنی امریکہ کا دباو قبول کر سکتا ہے؟۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پمپیو نے اگلے روز اعلان کیا کہ قیدیوں کی رہائی کا وقت آگیا ہے، امریکہ کے صدر ٹرمپ نے بھی امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا بردار اخوند سے فون پر رابطہ کیا اور دونوں رہنماوں نے 35 منٹ تک امن معاہدے، قیدیوں کی رہائی اور امن عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا، افغانستان کے لئے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے بھی قیدیوں کی رہائی پر زور دیا جبکہ ڈاکٹر عبداللہ اور ملک کے دیگر سیاستدانوں نے بھی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی قیدیوں کے تبادلے پر اصرار کیا۔پاکستان نے بھی معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی سے متعلق اصولی بیان دیا کہ بین الافغان مذاکرات کے لئے یہ ضروری ہے ۔ اشرف غنی اور ان کے گروپ کی واضح مخالفت اور نفرت آنگیز بیانات کے باوجود افغان طالبان نے سنگین پالیسی اختیار کی اور ان کو جواب دینا گوارہ نہیں سمجھا۔ انہوں نے مفاہمت کے اصول پر عمل کیا اور صرف یہ بیان دیا کہ ہم معاہدے کے تمام نکات پر عمل درآمد کرنے کے لئے پرعزم ہیں، بین الافغان مذاکرات سے قبل قیدیوں کی رہائی ضروری ہے، اس کے بغیر ہم مذاکرات نہیں کریں گے، اگر قیدیوں کو رہا کیا گیا تو ہماری مذاکراتی ٹیم اور ایجنڈا دونوں تیار ہیں اور اگر وقت مقررہ پر مذاکرات شروع نہیں ہوں گے تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ فریق مخالف پر ذمہ داری عاہد ہوتی ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹیگس کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ عبداللہ عبداللہ اور دیگر رہنما¶ں سے مشاورت کر رہے ہیں اور آئندہ چند روز میں طالبان سے ہونے والے بین الافغان مذاکرت کے لیے جامع ٹیم کا اعلان کریں گے۔واضح رہے کہ دوحہ امن معاہدے کے مطابق 10مارچ سے بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ شروع ہونا تھا ، تاہم صدارتی انتخابات کے نتائج پر اختلافات سمیت قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی باعث سیاسی بحران کے باعث اگلا مرحلہ بروقت شروع نہیں ہوسکا ۔ 14 مارچ سے کابل حکومت روزانہ کی بنیاد پر 1500قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کرنے کا مشروط اعلان کرچکی ہے ،تاہم افغان طالبان نے مہیا کردہ فہرست کے مطابق ہی قیدیوں کی رہائی کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اپنے قیدیوں کی رہائی میں کسی کمی پر تیار نہیں ہوں گے۔ نیز افغان طالبان نے بائیو میڑک تصدیق شدہ فہرست امریکا کو مہیا کی ہے ، لہذا کابل حکومت اگر فہرست سے ہٹ کرکسی بھی قیدی کو رہا کرتی ہے تو وہ افغان طالبان کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوگا ۔افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کی جانب سے 1500قیدیوں کی رہائی کے فارمولے کو رد کرتے ہوئے امریکا سے 6000قیدیوں کے تبادلے کو دوحہ معاہدے پر عمل درآمد ہونے تک انٹرا افغان مذاکرات پر پیش رفت سے انکار کردیا ہے ۔سب سے اہم پہلو یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکی درخواست پر افغان امن معاہدے کی توثیق بھی کردی ہے جو افغانستان میں قیام امن کے لئے سب سے اہم پیش رفت ہے۔تاہم قیدیوں کی تبادلے میں سست روی سے بین الافغان مذکرات تعطل کا شکار ہیں۔زلمے خلیل زاد نے یہ توقع تو ظاہر کی ہے کہ100دنوں میں افغانستان میں مکمل جنگ بندی پر اتفاق رائے ہوجائے گا ، امریکی فوجی کی تعداد 8600 اور14ماہ میںتمام امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہوجائے گا ، تاہم حالات سازگار نہ رہے تو معاہدہ ختم بھی ہوسکتا ہے۔امریکی انتظامیہ ، افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے مخالف ہیں اور انٹرا افغان ڈائیلاگ میں سب سے اہم نکتہ افغانستان کے سیاسی ڈھانچے و مستقبل پر مرکوز ہے ، جوخطے میں مستحکم امن کا حتمی فیصلہ کرے گا ۔
ا ی میل:qadirkhan.afghan@gmail.com
(مضمون نگار تفتیشی صحافی،سیاسی و انتہاپسندی عالمی امور کے تجزیہ کار، جہان پاکستان گروپ کے ایسوسی ایٹ میگزین ایڈیٹر/کالم نگار/نمائندہ خصوصی ہیں)