واشنگٹن: امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے چین کے مغربی حصے میں نسلی و مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا کر ان کے حقوق انسانی پامال کرنے کی پاداش میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے تین رہنماو¿ں بشمول حکمراں پولٹ بیورو کے رکن کے خلاف پابندیاں عائد کر دیں۔وزیر خارجہ مائیک پوم پیو نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے ذریعہ شین جیانگ میں ایغور وں، قازق لوگوں اور دیگر اقلیتی فرقوں کے لوگوں کے حقوق انسانی کی پامالی بشمول جبری مزدوری، من مانی گرفتاریاں ،جبری ضبط تولیداور ان کی ثاقفت اور مسلم عقیدے کو مٹانے کی کوشش کرنے پر خاموش تماشائی نہیں بنا رہے گا۔
پوم پیو کے بیان میں ، جو وزارت مالیات سے جاری کیے گئے اسی قسم کے اعلان کے ساتھ جاری کیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ ان دیگر پارٹی عہدیداروں پر بھی جو گرفتاریاں کرنے کے ذمہ دار ہیں اضافی ویزا پابندیاں لگائی جا رہی ہیں ۔ تین سینیئر چینی عہدیداروں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی کورونا وائرس وبا، حقوق انسانی ،ہانگ کانگ اور تجارت سے متعلق معاملات پر تعلقات تلخ ہوجانے کی وجہ سے چین کے خلاف ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی تسلسل سے کیے جانے والی کاروائیوں میں تازہ ترین کارروائی ہے۔
ایک روز پہلے ہی ٹرمپ انتظامیہ غیر ملکیوں کی تبت تک رسائی پر پابندی کا ذمہ دار سمجھے جانے والے چینی عہدیداروں اور افسران کے خلاف بھی ویزا پابندیوں کا اعلان کر چکا ہے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے جمعرات کے روز جو کارروائی کی ہے اس سے چینی قیادت کی سینیئر سطح کے عہدیداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے چین کی طرف سے نہایت تند و ترش جوابی کارروائی کی جا سکتی ہے۔امریکی وزارت خزانہ کا غیر ملکی اثاثہ کنٹرول دفتر شن جیانگ ایغور خومختار خطہ (ایک یو اے آر) میں نسلی و مذہبی اقلیتوں کے حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی کے سلسلہ میں ایک چینی حکومتی شخصیت اور تین سابق سرکاری عہدیداروں پر پابندی عائد کر چکا ہے۔
جن حکومتی شخصیات پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ شن جیانگ ایغور خومختار خطہ کے کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری شین قیانگوؤ اور شن جیانگ ایغور خومختار خطہ کے ہی ایک سابق ڈپٹی سکریٹری ژو ہیلون ہیں۔جمعرات کے روز جن لوگوں پر پابندی عائد کی گئی ان میں شن جیانگ پبلک سیکورٹی بیورو (ایکس پی ایس بی) ،شن جیانگ پبلک سیکورٹی بیورو کے موجودہ ڈائریکٹر اور کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری وانگ مینگشان اور شن جیانگ پبلک سیکورٹی بیورو کے سابق پارٹی سکریٹری ہوو لیوجن شامل ہیں۔امریکی وزات مالیات کے دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ کنٹرول (او ایف اے سی) کے فرمان میں کہا گیا ہے کہ جس شخصیت اور عہدیداروں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ شن جیانگ میں نسلی اقلیتوں کے خلاف حقوق انسانی کی پامالی کے، جس میں شن جیانگ میں رہائش پذیر ایک ترک مسلم آبادی ایغوروں اور خطہ کے دیگر نسلی اقلیتوں کو نشانہ بنا کر بے پناہ جسمانی اذیتیں دینا اور اجتماعی من مانی گرفتاریاں کرنا شامل ہے،مرتکب ہوئے ہیں۔
پابندیوں میں ان میں سے کسی بھی شخصیت سے کسی قسم کے مالی ، مادی یا دیگر نوعیت کا تعاون کرنا یا تعلق رکھنا، کوئی عطیہ دینا یا لینا یا کسی ممنوعہ شخص کو فائدہ پہنچانا ممنوع ہے۔ امریکی وزارت مالایت کے دفتر کے مطابق 2016کے اواخر سے ایکس پی بی ایس خطہ میں ایغوروں اور دیگر نسلی اقلیتی گروپوں کے اراکین پر ظلم و ستم ، بشمول گرفتاریاں اور نگرانی کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہے۔پی آر سی کی نگرانی اور جاسوسی میں مذہبی اور نسلی اقلیتی گروپوں کو اہداف بنا کر کی جارہی ہے کیونکہ چینی حکومت کم و بیش تمام مذہبی امور کی ادائیگی کو مذہبی انتہاپسندی یا نسلی علیحدگی پسندی کی علامت سمجھتی ہے۔ نگرانی میں جن کو نشانہ بنایا جاتا ہے اکثر و بیشتر گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور انہیں مختلف انداز کی اذیتیں دی جاتی ہیں اور دوبارہ سیاسی سبق پڑھایا جاتا ہے۔
ابلاغی ذرائع کے مطابق کم از کم2017سے ایک مہج سے زائد مسلمانوں کو قید خانوں میں ڈالا جا چکا ہے۔ گذشتہ ماہ 29جون کو شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ مغربی شن جیانگ میں بظاہر مسلم ایغوروں کی آبادی کو محدود کرنے کی کوشش میں چین خواتین کا ضبط تولید پر مجبور کر رہاہے اور ان کی کوکھ میں ایک ایسا آلہ فٹ کر دیا جاتا ہے جس سے خواتین بانجھ جیسی ہوجاتی ہیں۔ شن جیانگ میں قدرتی افزائش آبادی میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی ہے اور 2015اور2018کے درماین ایغور آبادی میںشرح پیدائش میں84فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 2019میں اس میں اور کمی واقع ہوئی۔ 2020میں شرح آبادی کا ہدف محض1.05 فی دس لاکھ رہا اور یہ خاندانی منصوبہ بندی سے ہی ہوا۔ چینی ماہر کے ذریعہ تیار کردہ رپورٹ کے مطابق چین کی پالیسیوں کو آہستہ آہستہ آبادیاتی نسل کشی کہی جا سکتی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے چین دیہی ایغور خطہ میں وسیع پیمانے پر ایسی خواتین کی نسبندی کی مہم کا منصوبہ بنا رہا ہے جن کے تین یا ا س سے زائد بچے ہیں ۔حتیٰ کہ دو بچے والی ماؤں کی بھی کوکھ بند کی جا سکتی ہے۔جبکہ دوسری جانب چین کا دعویٰ ہے کہ علیحدگی پسند دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے ایغوروں کو سیاسی طور پر سدھارنے اور ان کی تربیت کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔چین کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کو پنپنے سے روکنے کے لیےیہ کیمپ ضروری ہیں۔کچھ افشاءسرکاری ستاویزات سے انکشاف ہوا ہے برقعہ اوڑھنے یا لمبی ڈاڑھی رکھنے پر بھی لوگوں کو ان کیمپوں میں ڈالا جا رہا ہے۔
