ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کے سلسلے میں اشتباہ (Confusion) اور تنازعہ (Controversy)ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں ڈر اور اندیشہ ہے اور لوگ غصہ(Angry)میں ہیں اور اس کی مزاحمت کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ امت شاہ جی نے بنگال کی انتخابی ریلیوں میں لوگوں کو بتایا کہ ہم سی اے اے لائیں گے، پھر این پی آر لائیں گے اور پھر این آر سی کریں گے۔
اس پروسس میں ہندو، سکھ، بودھ، جین،عیسائی اگر کسی وجہ سے نہیں آسکیں گے تو انہیں شہریت ترمیمی قانون کے تحت ان کی شہریت بحال کردی جائے گی۔ اس سے یہ خیال کیا جاتا ہے اس پورے عمل میں اگر کسی مسلمان کی مطلوبہ کاغذات کی عدم دستیابی یا کسی تکنیکی خامی کی وجہ سے اس کی شہریت مشکوک قرار دی جائے گی تو اس کو در اندازقرار دے کر اس کے تمام شہری حقوق اور شہریت کی شناخت چھین لیے جائیں گے۔ اس طرح وہ Statelessہوجائے گا۔ اب یا تو اسے سرحد پار دھکیل دیا جائے گا یا پھر detention camp بھیج دیا جائے گا۔
پارلیامنٹ میں وزیر داخلہ امت شاہ نے اس بل کی جو کرونولوجی سمجھائی اس کے بعد ہی شمال مشرق اور آسام سے لے کر کیرالہ تک اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی آئینی خامیوں کی طرف توجہ دلا ئی جانے لگی۔ وزیر داخلہ اس بل پر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کو کھلی بحث کی دعوت دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ قانون شہریت دینے کے لےے ہے لینے کے لےے نہیں ہے۔ ٹھیک ہے آپ نے کچھ ملکوں اور کچھ مذہبی گروہوں کے لےے یہ گنجائش رکھی ہے اور معقول تحدید (Reasonable Restrictions) کے تحت حکومت ایسا کرسکتی ہے۔ لیکن ملک دستور سے چلے گا یا حکمراں جماعت کے انتخابی منشور سے چلے گا۔ اگر دستور کی بات کی جائے تو دستور مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے یا شہریت نہ دینے کی بات نہیں کرتا بلکہ اس نے اس کا واضح ضابطہ(Criteria)متعین کررکھا ہے۔ اب اگر کوئی شخص یا گروہ کسی ملک میں ظلم و بربریت کا شکار ہے اور وہ بھارت میں پناہ لینا چاہتا ہے یہاں کی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے اور کوئی حکومت اس کو شہریت دینا چاہتی ہے اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ اگر پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں کوئی مظلوم مسلمان ہے اور آپ اسے اپنے یہاں پناہ نہیں دینا چاہتے ہیں یا اسے شہریت نہیں دینا چاہتے ہیں تویہ Reasonable Restrictionsکے دائرے میں آئے گا نہ کہ خطہ کے تمام دوسرے پڑوسی ملک اور اس میں صرف ایک کمیونٹی۔ یہ بات دستور کی روح اور اس کے واضح نکات کے خلاف ہے۔ مگر مسلمان اور سول سوسائٹی کے لوگ اس بات پر احتجاج نہیں کررہے ہیںکہ آپ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے مسلمانوں کو کیوں شہری حقوق نہیں دیں گے؟ ان کا احتجاج اس وجہ سے ہے کہ آپ جو پروسس اپنانے جارہے ہیں اس کی وجہ سے اس ملک کے کروڑوں لوگوں کی شہریت مشکوک ہوجائے گی اس لےے کہ 130کروڑ کی آبادی میں مشکل سے 20-30 کروڑ لوگ ہوں گے جن کے پاس وہ کاغذات ہوں گے جن سے ان کی شہریت ثابت ہوجائے گی۔ سو کروڑ لوگوں کے لےے اپنے شہری کاغذات کی فراہمی ایک ہمالیائی مہم ہوگی جس کی وجہ سے ملک کے کروڑوں لوگ پریشان ہوںگے اور اربوں کھربوں کی رقم خرچ ہوگی جو ملک کی معیشت پر اور عوام پر بوجھ بنے گی۔ غریب لوگوں پر اور کمزور طبقات پر اس کی مار پڑے گی۔ اس لےے یہ ہندو مسلمان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہےے۔ آسام کا تجربہ لوگوں کے سامنے ہے۔
حکومت آسام نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں این آر سی کرائی۔ اس میں 19 لاکھ لوگوں کی شہریت ثابت نہیں ہوپائی ہے۔ اس میں14 لاکھ ہندو ہیں اور پانچ لاکھ کے قریب مسلمان ہیں۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد خود حکومت آسام پریشان ہے۔ مقامی لوگوں کا ہنگامہ جاری ہے۔ حکومت کو پہلے قدم پر اس میں تیزی لانی چاہےے اور جلد سے جلد اس کو حتمی شکل دینا چاہےے اور حکومت بنگلہ دیش سے بات کرنی چاہےے کہ اس کے اتنے شہری غیر قانونی طور پر ہندوستان میں ہیں انہیں وہ واپس لے لے اور اس کے لےے عالمی برادری سے بھی اپیل کرنی چاہےے۔ حکومت کو لگ سکتا ہے کہ اس کو اس سے سیاسی فائدہ ہوگا۔ میں نہیں جانتا کہ اس قانون پر سپریم کورٹ کا کیا فیصلہ ہوگا۔ مگر حکومت کا یہ قدم ناعاقبت اندیشانہ ہے۔ ملک کا عالمی وقار گررہا ہے۔ حکومت کو پہلی فرصت میں این پی آر اور این آر سی کو بند کرنے کا اعلان کرنا چاہےے اور ساری توجہ 2021کی مردم شماری پر لگانی چاہے۔
ای میل:dr.abuzarkamaluddin@gmail.com
(کالم نگار ’زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد‘ کے مصنف اور بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل کے سابق وائس چیئرمین ہیں)
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات و نظریات ہیں ادارہ اردو تہذیب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)