World particularly Pakistan and Turkey must denounce the genocide of uyighur muslims in Chinaتصویر سوشل میڈیا

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

سنکیانگ میں، جسے چین کا ایغور خود مختار علاقہ بھی کہا جاتا ہے، تقریباً 12 ملین مسلم اویغور آباد ہیں۔ اویغور کا تعلق ترک نسل سے ہے، چینیوں کے برعکس، ان کے جسمانی خد وخال اور ڈیل ڈل ترکوں سے مماثل ہے، وہ (پرانی) ترکی جیسی زبان بولتے ہیں۔ اویغور کی تاریخ اور ثقافت ترکوں سے ملتی ہے۔چین میں بہت سی دوسری نسلی مسلم برادریاں بھی ہیں۔ چینی مسلمان اپنے شجرہ نسب کو تاریخ اسلام کے کو تیسرے خلیفہ عثمان ابن عفان سے جوڑتے ہیں جنہوں نے حضرت محمدﷺکے صحابہ کو بشمول سعد ابن ابی وقاص چین بھیجا ۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں مسلمان عربوں اور ترکوں کی سرزمین سے چین آکرآباد ہوئے۔1949میں چینی کمیونسٹ پارٹی بر سر اقتدار آئی او را قتدار کو مرکزیت دینا اور چینی سلطنت کو وسعت دینا شروع کر دیا ۔

انہوں نے تبت پر حملہ کیا اور سنکیانگ ریاست پر قبضہ کر کیا جو مسلم اکثریتی علاقہ تھا۔ چین میں آج 20 ملین یعنی دو کروڑسے زیادہ مسلمان آباد ہیں جس میں 40,000 سے زیادہ مساجد اور اسلامی مراکز ہیں اور 45,000 سے زیادہ اسلامی رہنما (علما، ائما اور شیوخ) ہیں۔چینی مسلمانوں کی 1400سالہ پرانا ورثہ، ثقافت اور زبانوں کے باوجود حالات یسے نہیں ہیں جیسا کہ چینی مسلمانوں کے تھے۔چین کے آئین میں مذہب اور نسلی اقلیتوں کے حوالے سے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے لیکن چینی حکومت اس کو نظر انداز کرتی ہے اور اپنے قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ فی الحال، سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کو یا تو بہت کم مذہبی آزادی حاصل ہے یا بالکل نہیں ہے۔2014سے چین کی حکومت انسانیت کے خلاف جرائم اور اویغور مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے اور ان کی نسل کشی کی مرتکب ہو رہی ہے یا ان کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے لیے مظالم ڈھا رہی ہے۔ چینی حکومت نے سیاسی دوبارہ تعلیم کے کیمپوں کی آڑ میں اویغوروں کے خلاف ایک زبردست اور وحشیانہ مہم چلائی، جس میں انہیں اسلام ترک کرنے اور چینی طور طریقوں کو اپنانے پر مجبور کیا گیا۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی رپورٹوں کے مطابق مذہبی انتہا پسندی سے لڑنے کے بہانے مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کی مہم دوسری جنگ عظیم کے دوران ہولوکاسٹ کے بعدسے اب تک کی بدترین نسل کشی ہے۔ 1.5 ملین سے زیادہ مسلمان جنگی قیدیوں کی طرح حراستی کیمپوں میں قید ہیں جہاں اویغور مسلمانوں کے ساتھ منظم طریقے سے زیادتی اور تشدد کیا جاتا ہے۔ حراستی کیمپ کے ایک سابق قیدی کے مطابق مسلمانوں کو چینی ثقافت پر عمل پیرا ہونے کی دوبارہ تعلیم دینے کے بہانے سور کا گوشت کھانے اور شراب پینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جب وہ اسلامی طور طریقے ترک کرنے سے انکار کرتے ہیںتو ان پر ایسا بی رحمانہ تشدد ڈھایا جاتا ہے کہ ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے لڑ رہے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ چینی حکومت کا ایجنڈا چینی مسلمانوں کے عقیدے اور ثقافت کو ختم کرنا ہے۔

اگست 2018 میں، انسانی حقوق کے ایک پینل نے انکشاف کیا کہ 10 لاکھ اویغور مسلمانوں کو سنکیانگ صوبے کے کیمپوں میں قید کرکے ان کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔اپنے اداریوں اور کالموں میں، بہت سے بین الاقوامی اخبارات اور چینی مسلمانوں کے بیرون ملک مقیم رشتہ دار شی جن پنگ حکومت کی اسلام کی تعریف کو ”دماغی عارضہ“کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس لیے چینی حکام اس بیماری کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس جدید دنیا میں 12 ملین اویغور مسلمانوں کے نسلی صفایہ یا ہولوکاسٹ کی ایک نئی قسم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔چینی مسلمانوں کی اس وحشیانہ نسل کشی کے باوجود، امت اسلامیہ ( عالم اسلام) نے اس کو روکنے کے لیے کسی عملی اقدام کا مظاہرہ نہیں کیایعنی چینی تجارت کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بڑھایا ہے۔پاکستان نے،جو چین کا سب سے قریبی پڑوسی اور بہترین دوست ہے، اویغور مسلمانوں کی اس منظم نسلی صفائی کے خلاف خاموش رہنے کا انتخاب کیا ہے۔

عظیم چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے علاوہ پاکستان کئی شعبوں میں چین کے ساتھ اپنے روایتی تعلقات کو بڑھا رہا ہے۔ عمران خان چین کے دارالخلافہ بیجنگ میں ہونے والے ونٹر اولمپکس 2022میں بطور وی آئی پی مہمان شرکت کے لیے ایک لمبا چوڑا وزارتی وفد لے کر چین پہنچے ہوئے ہیں ۔بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر پاکستانی مندوبین چین کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں، لیکن چین میں مسلمانوں کے بھیانک و ناگفتہ بہ حالات پر بات کرتے ہوئے چین سے شاید گھبراتے ہیں۔عمران خان کی حکومت کو لاکھوں چینی مسلمانوں، خاص طور پر اویغوروں کی حفاظت اور مذہبی آزادی پر توجہ دینی چاہیے اور چین کو اویغور مسلمانوں کے لئے قائم حراستی کیمپ بند کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔خطے کا ایک اور طاقتور مسلم ملک ترکی بھی اسی طرح اس معاملے پر خاموش ہے۔ اویغور نسلی ترک گروہ ہیں۔ ترک حکومت نے ابھی تک اویغوروں کے مصائب پر چین کے ساتھ کوئی بات نہیں کی ہے۔ اویغوروں کے تحفظ پر ترکی کی خاموشی شرمناک ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جبکہ آسٹریلیا، امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور کناڈا سمیت کئی مغربی یورپی اور ایشیائی ممالک نے ونٹر اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے اور ان ممالک کے بیشتر رہنماو¿ں نے بیجنگ ونٹر اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیںکی۔ بین الاقوامی قوانین مذہبی آزادی کی حمایت کرتا ہے، اور چینی حکومت کو دیگر مہذب اقوام کی طرح اس کا احترام کرنا چاہیے۔ اس لیے انسانی حقوق کے کارکنوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو 20 ملین چینی مسلمانوں پر ہونے والے انتہائی مذہبی جبر کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔

(مصنف سڈنی مقیم صحافی، سیاسی تجزیہ کار اور ایڈیٹر ٹریبیون انٹرنیشنل، آسٹریلیا ہیں)۔
ای میل shassan@tribune-intl.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *