نئی دہلی: افغانستان میں19سالہ جنگ کے خاتمہ کے لیے بین افغان مذاکرات شروع ہونے کی راہ میں حائل معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے افغان طالبان کے قطر میں واقع دفتر سے ایک وفد آج پاکستان پہنچ گیا۔
قطر سیاسی دفتر کے ڈائریکٹر ملا برادر اور اطالبان کے نائب امیر برائے سیاسی امور وزارت خارجہ کی دعوت پر یہاں آنے والے افغان وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔
برادر 8سال تک پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کی تحویل میں رہے تھے۔ 2018میں افغان امن عمل کی راہ ہموار کرنے کے لیے امریکہ کی درخواست پر پاکستان نے انہیں رہا کر دیا تھا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا کانفرنس میں کہا کہ وفد منگل کے روز (آج)باقاعدہ مذاکرات کے لیے خارجہ دفتر آئے گا۔تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وفد کا قیام کب تک رہے گایا دوران قیام اس کی کیا کیا مصروفیات ہوں گی۔
طالبان کے سیاسی وفد کا یہ دوسرا دورہ پاکستان ہے اس سے قبل وہ اکتوبر 2019کو اسلام آباد آچکا ہے۔مسٹر قریشی نے یاد دلایا کہ کس طرح گذشتہ دورے نے فروری 2020میں امریکہ طالبان معاہدے پر دستخط میں معاونت کی۔ اور کہا کہ وفد کو دوبارہ اس امید میں مدعو کیا گیا کہ بین افغان مذاکرات کی راہ میں حائل پیچیدگیوں کو دور کی کر کے مذاکراتی عمل جلد شروع کیا جا سکتا ہے۔
چونکہ بین افغان مذاکرات کے آغاز کے لیے نہایت اہم پیشگی شرط فریقین میں قیدیوں کے تبادلہ کی تھی اور قیدیوں کی رہائی میں تاخیر ہی کئی مہینوں سے مذاکرات نہ ہوسکنے کا اصل سبب ہے۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ اس نے افغان سلامتی دستوں کے تمام 1000 اہلکاروں کو رہا کرنے کا جو وعدہ کیا تھا ان سب کو رہا کر دیا گیا جبکہ افغانستان کی حکومت نے جن 5ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا اس میںسے ابھی320کو اس نے رہا نہیں کیا ہے۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے جن آخری400طالبان کو رہا نہیں کیا ہے وہ سنگین جرائم میں سزایاب ہیں۔ان میںسے ابھی صرف80کو رہا کیا گیا ہے جبکہ320ابھی بھی حکومت کی تحویل میں ہیں۔