اسلام آباد:(اے یوایس)تشدد اور ٹارگیٹ کلنگ کی وجہ سے احمدیہ فرقہ کے لوگ ملک سے ہجرت کررہے ہیں۔ 1998سے2021تک ان کی مجموعی آبادی میں واضح کمی نظر آرہی ہے۔ 1998میں احمدی برادری کی آبادی 0.22تھی جو اب 0.09.رہی۔احمدیہ فرقہ کے ترجمان نے کہا کہ ظلم وستم کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ 1980سے شروع ہوا ان کے اندازے کے مطابق پاکستان میں اب بھی چار سے پانچ لاکھ کے قریب احمدی رہتے ہیں۔ جبکہ پاکستان الیکشن کمیشن نے 2018میںاحمدی ووٹرس کی تعداد ایک لاکھ77ہزاربتائی جن میں اکثریت پنجاب اور سندھ کی تھی۔ ایسے بہت سے واقعات پیش آتے ہیں جہاں احمدی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نشانہ بنایاگیا ہے ان میں ڈاکٹر عبدالقدیر بھی شامل ہیں جنہیں ایک نوجوان نے کلینک کے اندرپستول سے ہلاک کیا اور وہ وہیں پر ڈھیر ہوگئے۔ 2021 میں ڈاکٹر عبدالقادر احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے چوتھے ایسے فرد تھے جنھیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر ہلاک کیا گیا۔
احمدی برداری پر حملوں کی اس لہر کے بعد کئی احمدی خاندان پشاور سے نقل مکانی کر گئے ہیں، جن میں سے کچھ پاکستان کے دیگر شہروں اور کچھ بیرون ملک چلے گئے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کے مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں معاون اور پاکستان علما کاو¿نسل کے چیئرمین حافظ طاہر محمود اشرفی کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں تسلیم کرتے کہ احمدی برادری کی آبادی میں وقت کے ساتھ اتنی بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی ذاتی معلومات کے مطابق جن علاقوں میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہ کاروبار و تجارت کے علاوہ پاکستان میں اچھے منصبوں پر بھی فائز ہیں اور ان میں سے بیشتر اپنی شناخت مخفی رکھتے ہیں۔’اگر انھیں کہیں بیرون ملک جانے کا موقع ملتا ہے تو وہ یہ موقع حاصل کرتے ہیں جس میں ان کی جماعت ان کی مدد کرتی ہے۔ میں ایسے کچھ لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنھوں نے بیرون ملک جانے کے لیے خود اپنے خلاف ایف آئی آرز کروائیں تھیں۔فضل اللہ قریشی سابق وفاقی سیکریٹری برائے منصوبہ بندی اور مردم شماری کے حوالے سے حکومت پاکستان کے معاون رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ احمدی برادری پابندیوں کے باعث اپنی مذہبی شناخت نہیں کرواتے۔’آج سے پہلے حالات مختلف تھے، موجودہ صورتحال مختلف ہے۔ انسانی غلطی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جو شہری معلومات فراہم کرتا ہے وہی لکھی جاتی ہے۔ اگر کوئی اپنا مذہب اسلام بتاتا ہے تو عملہ اسلام لکھتا ہے کیونکہ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے کافی افراد خود کو اسلام سے وابستہ کرتے ہیں اور اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ کچھ بیرون ملک بھی ہجرت ہوئی ہے جیسے دیگر کمیونٹیز کی ہوئی ہے۔فضل اللہ قریشی کا کہنا تھا کہ احمدی برادری کسی ایک گھر یا علاقے میں تو نہیں رہتی اور دانستہ طور پر کسی کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ کافی لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے لیکن ایسا درست نہیں ہے اور مردم شماری کی تین مرحلوں میں نگرانی ہوتی ہے۔دوسری جانب لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نتائج پر مجموعی طور پر صوبوں اور مذہبی اقلیتوں کا اعتراض ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے کئی افراد اپنی شناخت مخفی رکھتے ہیں کیونکہ انھیں جان کا خطرہ ہوتا ہے جن میں خاص طور پر وہ جو ربوہ سے باہر رہتے ہیں وہاں عدم تحفظ کا احساس زیادہ ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’آبادی میں کمی کی بڑی وجہ نقل مکانی بھی ہے جس میں گذشتہ 15 برسوں میں اضافہ ہوا ہے، پڑھے لکھے افراد پہلے کناڈا، امریکہ، جرمنی چلے جاتے تھے، اب تھائی لینڈ، سری لنکا جیسے ممالک جہاں ویزے کی ضرورت نہیں وہاں جانا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایسا رجحان ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھا۔ یورپ اور امریکہ کی طرف جو ہجرت کا ریکارڈ ہے اس کے بجائے ان ملکوں کی طرف دیکھنا چاہیے جو عام غریب احمدی کی دسترس میں ہیں۔جماعت احمدیہ کے ترجمان نقل مکانی سے انکار تو نہیں کرتے لیکن انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ البتہ شناخت چھپانے کے دعوو¿ں سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر فیملی ٹری میں 1974 سے شناخت بطور مسلم چل رہی ہو اور کسی نے تبدیل نہ کرائی ہو تو یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ شناخت کے لئے ایک حلف نامہ دینا ہوتا ہے اور اگر نہ بتائیں تو بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔
