کراچی:(اے یو یس ) شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی میعاد مکمل ہونے پر جہاں حکومتِ پاکستان اب تک خاموش ہے وہیں سیکیورٹی امور کے ماہر کہتے ہیں کہ حالیہ تخریب کاری کے واقعات میں داعش کا ملوث ہونا سیکیورٹی اداروں کے لیے دوہرا چیلنج بن چکا ہے۔سیکیورٹی ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے اثرات پاکستان کے سیاسی و سیکیورٹی حالات پر بھی مرتب ہوں گے جن میں داعش کا پاکستان میں دوبارہ فعال ہونا بھی شامل ہے۔پاکستان میں قیامِ امن کے لیے اسلام آباد نے ایک ماہ کے لیے ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا جس کے دوران ملک میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ لیکن چند ایک واقعات ضرور پیش آئے جن کی ذمے داری داعش نے قبول کی۔
خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں 22 نومبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے قاری الیاس کو قتل کیا گیا جس کی ذمے داری داعش نے قبول کی۔ اس سے قبل 13 نومبر کو باجوڑ میں واقع راغگان ڈیم کی سیکیورٹی پر مامور دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کی ذمے داری بھی داعش قبول کر چکی تھی۔طالبان کے افغانستان پر قبضے سے چند ماہ قبل پشاور میں افغان طالبان کے ایک اہم کمانڈر ملا نیک محمد رہبر اور افغان طالبان کے لغمان صوبے کے گورنر مولوی عبدالہادی لغمان کو بھی داعش نے قتل کرنے کے بعد ذمے داری قبول کی تھی۔اس تنظیم کو افغان طالبان کا مخالف اور ٹی ٹی پی کا حلیف سمجھا جاتا ہے۔ نو نومبر کو حکومتِ پاکستان سے ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے پر داعش نے شدید تنقید کی تھی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ خطے کی واحد جہادی تنظیم ہے۔اسلام آباد میں قائم سیکیورٹی تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے سربراہ محمد عامر رانا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان سے شروع ہونے والی داعش اور افغان طالبان کی لڑائی اب پاکستان پہنچ چکی ہے اور اب تک افغان طالبان کے متعدد اراکین اور ان کے حامی پاکستانی رہنما مارے گئے ہیں۔
ان کے بقول داعش افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی حالات پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں پچھلے کچھ مہینوں میں داعش نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے تین مقامی افراد کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کی ہے۔پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ایک سینئر انٹیلی جنس افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں داعش کے ابھرنے سے پاکستان کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں جن میں شدت پسند تنظیم کی جانب سے حملوں میں اضافہ شامل ہے۔ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کی ممانعت کی وجہ سے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر انٹیلی جنس افسر نے بتایا کہ ڈیڑھ سال قبل باجوڑ ہی کے علاقے میں قاری الیاس کے بھائی مفتی سلطان کی بھی ٹارگٹ کلنگ کے ایک واقعے میں ہلاکت ہوئی تھی جس کی ذمے دار داعش تھی۔ان کے بقول “افغان طالبان کے ساتھ قربت کی وجہ سے داعش نے دونوں بھائیوں کو ہلاک کیا ہے۔
انٹیلی جنس افسر کے مطابق داعش میں شامل ہونے والے ٹی ٹی پی کے باجوڑ اور اورکزئی اضلاع کے سابق رہنما پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔یاد رہے کہ پاکستانی حکام ایک عرصے تک داعش کی پاکستان میں موجودگی سے مکمل انکار کرتے رہے تھے۔ لیکن فوجی حکام نے خود ہی کئی مرتبہ اپنے بیانات میں اس شدت پسند تنظیم کے مراکز ختم کرنے اور مشتبہ افراد کو گرفتار یا ہلاک کرنے کے اعلانات کیے۔داعش نے پاکستان اور افغانستان کے لیے خراساں کے نام سے نظم 2015 میں تشکیل دیا تھا۔ پاکستان میں داعش کو پہلے مرحلے میں اس وقت کامیابی حاصل ہوئی تھی جب ٹی ٹی پی کے ایک دھڑے لشکرِ جھنگوی اور لشکرِ جےنگوی العالمی نے باضابطہ طور پر داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کی بیعت کی تھی۔افغانستان میں افغان طالبان سے الگ ہونے والے رہنماو¿ں اور افغانستان میں روپوش ٹی ٹی پی کے سابق رہنماو¿ں نے بھی داعش خراساں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد داعش خراساں نے جہاں افغانستان بھر میں طالبان رہنماو¿ں اور شیعہ کمیونٹی پر حملوں میں اضافہ کیا، وہیں پاکستان میں بھی افغان طالبان کے حامی رہنما، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنانا شروع کیا۔