سنجے حسنان سیرنگ کے قلم سے
کوروناویرس نے ہماری زندگی کو بہتری کے لیے بدل دیا ہے۔ جو حقائق سامنے آرہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چین کے خلاف عالمی ناراضگی بڑھ رہی ہے اور اب بہت سے ممالک کمیونسٹ حکومت کو مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ وائرل پھیلا ہے۔ ایک اطالوی صحافی ، فرانسسکا مارینو ، نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ لو ڈاو¿ن ختم ہونے کے بعد عالمی کساد بازاری کے مدنظر ہونے والے جنگی نقصانات کے لئے چین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہے۔تاہم ون بیلٹ ون روڈ (بی آر آئی) کے نام سے کئی کھرب ڈالر کے رابطے کے پروگرام کے باعث چین ہر لحاظ سے بہتر علاج و دوا دارو اورزبردست اسٹریٹجک گہرائی سے کمزور ممالک پر حاوی ہو رہا ہے جبکہ باقی دنیا آزادی چھینے اور معیشت تباہ ہو جانے کا سوگ منا رہی ہے ۔ چونکہ چین شورش زدہ اور نشان زدہ اثاثوں اور اسٹاک کی خریداری میں پوری طاقت جھونکا ہواہے ، امریکہ اور یونان جیسے ممالک کوروناوائرس کی وجہ سے ہونے والی آبادیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں معاشی پناہ گزینوں کی نئی لہروں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا پڑ سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شیر کبھی بھی اپنی کھال نہیں بدلتا۔
لندن واقعہنری جیکسن سوسائٹی نے وبائی امراض پھیلانے میں چین کی زبردست صلاحیت کا جائزہ لیتے ہوئے دس قسم کی متعدی بیماریوں پر قابو پانے کے اقدامات کی خلاف ورزی کی شناخت کی ہے ، جن میں سے کچھ سارس پھیلنے کے بعد سامنے آئے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ چین کے سنسان ہوجانے والے بازاروں میں راتوں رات چہل پہل اور کاروبار شروع ہو گیاہے جبکہ باقی ساری دنیا کورونا وائرس وبا کے تھپیڑوں اور زبردست نقصانات سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔دنیا سارس کی طرح کورونا وائرس سے بھی غیر ضروری طور پر قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے کیونکہ چین اپنی عادت کے مطابقحقائق کو چھپاتا ہے ، ڈاکٹروں اور خطروں سے آگا کرنے والوں کو خاموش کرتا رہا اور بی آر آئی سے متعلق مینوفیکچرنگ اور سرحد پار نقل و حرکت اندھا دھند طریقے سے کرتا رہا۔کسی دور میں خوشحالی کا ذریعہ کہے جانے والا بی آرف آئی ایران اور اٹلی جیسے ممالک کے لئے بی آر آئی دہشت گردی کی گاڑی میں بدل گیا ہے جو معیشتوں کو گھٹنوں کے بل لے جائے گا ۔ ایران کے نائب وزیر صحت علی رضا رئیسی نے ایران میں کورونا وائرس پھیلانے کے لئے چینی طلبا اور کارکنوں کو ذمہ دار ٹہرایا۔ ایران کی CoVID-19 کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا ہے کہ صرف تہران میں ہی ، 19 فروری سے 20 مارچ کے درمیان 23ہزارافراد کو شدید تنفس کا مرض ہوجانے کے باعث اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور اسی عرصے میں صرف 9000 افراد ہی شفایاب ہو کر ڈسچارج کیے جا سکے۔ اسی دوران محض 1.9 ملین نفوس پر مشتمل آبادی والے صوبہ گلستان میں 327 ڈاکٹروں اور نرسوں میںکورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
17 مارچ کو لاس اینجلس ٹائمز نے خبر شائع کی کہ ایران میں مغربی ایشیا میں کورونا وائرس کے جو18ہزار کیسز ہوئے ہیں ان میں سے نوے فیصد واقعات ایران میں ہوئے ہیں۔ بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے خمینی کے 1979 کے انقلاب کے بعد ایران نے پہلی بار آئی ایم ایف سے قرضہ کے لئے درخواست دی۔گلگت بلتستان بھی جسے دنیا چین پاکستان اقتصادی ر اہداری(سی پیک) پر ایک اہم اسٹیجنگ پوسٹ کے طور پر جانتی ہے پاکستان میں کورونا وائرس کا مرکز بن گیا ہے۔ خطے پر ہندوستانی دعوو¿ں کو نظر انداز کرتے ہوئے ، چین مغربی ایشیا اور افریقہ سے توانائی کے وسائل درآمد کرنے کے لئے ریلوں اور شاہراہوں کی تعمیر کر رہا ہے اور گلگت کے راستے پائپ لائنیں بچھا رہا ہے۔ پاکستان کے قومی انسٹی ٹیوٹ برائے صحت کے مطابق گلگت میں 21 مارچ کو قومی اوسط 3.07فی دس لاکھ کے مقابلے میں 36.7 فی دس لاکھ کورونا وائرس کیسز سامنے آئے۔ گلگت کے مریض جن میں زیادہ تر دینی مدارس کے طلبا اور زائرین پر مشتل تھے ایران سے یہ مرض لائے تھے۔ بلوچستان میں ، جو گلگت کے رہائشیوں کے لئے ایک راہداری ہے ، اس کے قرنطینہ مراکز میں مقیم مسافروں کو مقامی لوگوں میں کورونا وایرس منتقل کرنے کے شبہ کے بعد ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔پاکستان مقامی خدشات کو دور کرتے ہوئے سی پیک کی تکمیل کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
مقامی مصنف اور مو¿رخ شفقت انقلابی ، گلگت اور مظفر آباد میں چین کی موجودگی کو ایک حملہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ، “چین ، جو اپنے عالمی عزائم کو پورا کرنے کے لئے کورونا وائرس وبا کا استعمال کر رہا ہے ، گلگت کے زمینی راستوں اور قدرتی وسائل کا غیر قانونی استحصال کر رہا ہے۔ اگر مقامی افراد کو سی پیک سے ملازمتیں یا محصول نہیں مل رہا ہے تو پھر انہوں نے چینی مزدوروں کو کیوں واپس آنے دیا اور وہ بھی خدشہ کے باجود کہ وہ اپنے ساتھ کورونا وائرس لے کر آسکتے ہیں ۔ گلگت کی ایک ممتاز سماجی کارکن طاہرہ جبیں کا کہنا ہے کہ پائپ لائنیںراحت اور پریشانی دونوں لائی ہیں۔ چینی مزدوروں کے علاوہ ، یہ گلگت میں منشیات اور دہشت گردی کی وبا کو بھی لا ئی ہیں۔ سی پیک کے ساتھ واقع ناگر وادی کورونا وائرس وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے اور حکومت نے یہاں بہت سارے دیہات میں لاک ڈاو¿ن کر رکھا ہے۔ ہم ایک عالمی ڈھانچے کی جس کا مقصد چین کو فائدہ پہنچانا ہے، بنیادی طور پر موجود کمزوریوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔
گلگت کے قازقستان اور تاجکستان جیسے دوسرے ہمسایہ ممالک نے اس وبائی بیماری کو روکنے کے لئے چین کے ساتھ سرحدی تجارتی علاقے اور نقل و حمل روابط بند کردیئے ہیں۔بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک اثرکی وجہ سے مسرور و مدہوش چین بی آر آئی سے مغربی جمہوریاو¿ں کو ڈرا رہا ہے اور اقوام متحدہ جیسی کثیر اقوامی تنظیموں سے اپنی مرضی کے فیصلے کرا رہا ہے ۔ ایتھوپیا ، جو اس وقت اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کا سربراہ ہے بی آر آئی سے سب سے زیادہ استفادہ حاصل کرنے والا ملک ہے ۔ ایتھوپیا کے ٹیڈروس غیبریساس کو ، جنہوں نے ڈبلیو ایچ او کا ڈائریکٹر جنرل بننے کے لئے چین کی مدد چاہی تھی ، سرحدوں کو کھلا رکھنے میں ممالک کو گمراہ کرنے اور کورونا وائرس کی انسان سے انسان میں منتقلی کو کوئی اہمیت نہ دے کر چینی مفادات کے محافظ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چین کو کورونا وائرس کا متاثر ہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے یہ تجزیہ کیے بغیر کہ کتنے ممالک نے ناقص جانچ کٹیں اور ماسک بھیجنے کے لیے چین کو متنبہ کر رہے ہیں چین کے صدر شی جن پنگ کو فراخ دلی کی سیاست کا ہیرو قرار دیا ۔چین کا دوست حکومتوں کو شامل کرنے کا جنون بہت سے بی آر آئی ممبر ممالک کے جمہوری اداروں کو غیر اہم بنا رہا ہے۔
مثال کے طور پر ، پاکستانی حکومت کو اکثر سی پیک پر تنقید کرنے والی آوازوں کو دباتے دیکھاجاتارہا ہے۔ وبائی امراض سے لڑنے کے لیے چین پرانحصار ، قرضوں کی شرائط پر بات چیت کرنے کے لیے پاکستان کے اثر کو کم کرتا ہے ، اور سری لنکا کی طرح نتیجہ اثاثوں کی ضبطی کی شکل میں نکل سکتا ہے ۔ دوسرے بی آر آئی ممبران جو جی ڈی پی اور خودمختاری میںچین کے ممنون مشکور ہیں ، ان میں جیبوتی ، کرغزستان ، لاو¿س ، میانمار ، مالدیپ ، منگولیا ، اور مونٹی نیگرو شامل ہیں۔ٹروجن ہارس کی طرح ، بی آر آئی بھی حملہ آور ہے اور کمزور پڑوسیوں کو معاشی دہشت گردی سے متاثر کر رہاہے۔ جانوروں کے پروٹین کی بڑھتی ہوئی چینی طلب نے بی آر آئی کے رکن ممالک کو مختلف قسم کے غیر ملکی جانوروں کی اسمگلنگ کی پائپ لائنوں کی شکل میں بدل دیا ہے ۔ قرضوں کے جال میں پھنسے ، یہ ممالک مناسب جواب دینے میں ناکام ہوجائیں گے کیونکہ نئے مرض پیدا کرنے والے جراثیم مستقبل کی وبائیں پھوٹنے کی رفاہ پیدا کرتے ہیں ۔
اگر ماضی کا طرز عمل مستقبل کا پیش گو ہے تو پھر دنیا کو چین جیسے غیر ذمہ دار ملک کو عالمی فراہمی سلسلہ پر اپنا کنٹرول بڑھانے اور اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے سنگین نتائج سے مغرب کو پریشانی میں ڈالنے کے لیے بی آر آئی کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے ۔ جو ممالک اپنی معیشتوں کو تقویت دینے کے خواہاں ہیں انہیں بی آر آئی نمونے سے دور رہنا چاہئے اور مقامی مینو فیکچرنگ اور انسانی وسائل کی نو تعمیر کے لئے بین الاقوامی کنسورشیموں سے مدد لینی چاہئے۔