ایم آر شمشاد
( اے یو ایس )
ہاتھرس آبروریزی معاملے نے ہماری فوجداری انصاف کے نظام میں کثیر جہتی مسائل کے خلاف پھر سے لوگوں میں غصہ پیدا کردیا ہے۔ ملزموں کے حق میں حقائق اور اس کے بعد حمایت کٹھوعہ معاملے سے بہت ملتا جلتا ہے جہاں دو برسراقتدار وزراءنے ملزموں کی حمایت میں ایک ریلی کو خطاب کیا تھا جس میں سے زیادہ تر اعلیٰ برادریوں کے تھے۔ ہاتھرس میں پھر سے ہم نے ملزموں کے حق میں اعلیٰ ذات کے لوگوں کی صف آرائی کو دیکھا۔ کٹھوعہ معاملہ ایک خانہ بدوش لڑکی کا تھا جبکہ ہاتھرس درج فہرست ذات کی لڑکی کا ہے۔ چند سال قبل نربھیا کا اسی طرح بھیانک آبروریزی کا معاملہ سامنے آیا تھا لیکن کوئی بھی ملزم کے لئے انصاف مانگنے نہیں آیا بلکہ اس کے نتیجے میں آبروریزی سے متعلق قانون میں زبردست تبدیلی آئی۔
ہاتھرس کے معاملے میں واقعہ رونما ہونے، متاثرہ کے آخری رسوم کی ادائیگی پر متاثرہ کے خاندان کے ارکان کی مبینہ پٹائی پر اور پھر میڈیا کو کنٹرول کرنے پر سوال اٹھتے ہیں جیسے کہ یہ مسئلہ کوئی قومی سلامتی کا تھا۔ نربھیا اور کٹھوعہ معاملے میں کم سے کم ان کی لاشوں کی آخری رسوم کو لوگوں نے دیکھا تھا اور میڈیا نے آزادی کے ساتھ جیسے چاہا ویسی رپورٹ کی تھی۔ ہاتھرس آبروریزی کے معاملے میں ابتدائی حقائق بتاتے ہیں کہ اس میں نفرت اور ذات برادری سے متعلق معاملے جڑے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرح کی لنچنگ ہوئی۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نفرت سے متعلق جرائم، لنچنگ، کھاپ سے متعلق مسئلوں کے زمرے کے مطابق جرائم کا ریکارڈجمع نہیں کرتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی آکار پٹیل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں تعزیری قوانین کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پہلے ایسے جرائم کی جانچ کرنے والے کمیشن کے پیچھے کے پیشگی مفروضے کو پہنچانے اور ایسے مجرمانہ معاملات کی دستاویزات سازی کرے جس میں یہ دونوں باتیں موجودہ صورتحال میں واضح طور پر غائب ہوں۔ یہ اہم ہے کیونکہ صرف یوپی سے قومی انسانی حقوق کمیشن کے2019کے ریکارڈ کے مطابق انسانی حقوق کے خلاف46.7فیصد شکایتیں ہیں۔
ہاتھرس جیسے آبروریزی کے معاملے پر حکومت افسروں کے ایک مقام سے دوسرے مقام پر تبادلے کردیتی ہے۔ یہ عوام میں بھرم پیدا کرتا ہے اور متعلقہ افسروں کے لئے یکطرفہ اور مایوس کن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پھر پولیس کے توسط سے من مانی کارروائی کے دیگر پہلو آتے ہیں جیسے شہریوں پر سب سے سخت قانون نافذ کرنا۔ دی وائر کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020میں قومی سلامتی قانون کے تحت بک کئے گئے139لوگوں میں76گﺅکشی کے لئے13افراد سی اے اے مخالف مظاہرے کے لئے اور صرف37گھناؤنے جرم کے لئے ہیں۔ خاص طورسے اس سخت قانون کا بیجا استعمال اسٹیٹ کی پالیسی اور آئینی ضابطوں کے توسط سے قومی سلامتی کے مسئلے کو قانون وانتظام کے رکھ رکھاؤکے یکساں مسئلوں کے ساتھ خلط ملط کرنے سے ہوتا ہے جو آئینی پیمانوں کے برعکس ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وکاس دوبے کے معاملے میں جس کے خلاف63جرائم سے متعلق معاملے درج تھے، تب تک قانون و انتظام کا مسئلہ ہی نہیں تھا جب تک کہ اس نے پولیس افسروں کا قتل نہیں کیا۔ دوبے کے انکاو¿نٹر کے بعد ہم نے دیکھا کہ لوگ پولیس کے فوری انصاف کو درست قرار دے رہے ہیں۔ حکومت اور پولیس نے اپنے فرائض نبھانے میں ناکام ہونے پر قتل کے اس طریقے کا ارتکاب کیا جیسے کہ لوگوں کو انصاف کے عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس قسم کی تعریف گذشتہ چند برسوں میں یوپی پولیس کے ہاتھوں دیگر انکاو¿نٹر پر بھی نافذ ہوتے ہیں۔ اگر ہم اسے مقبول عوامی جذبات کے طور پر ترغیب دینا شروع کردیں گے تو یہ سسٹم اور سماج کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوگا۔ ہم میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
پولیس پر حکومت کا کنٹرول ایسا ہے کہ سنگین جرائم کے لئے ایف آئی آر درج کرنے کی سپریم کورٹ کی ہدایت بھی پولیس سسٹم کے ذریعہ عمل میں نہیں لائی جاتی ہے۔ ایف آئی آر میں شکایت درج کرنے سے زیادہ بنیادی کام کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ جس طرح سے جسٹس ملی بتھ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ ایف آئی آر کا رجسٹریشن پولیس افسر کا ضروری کام ہونا چاہیے اور اس فرض کی خلاف ورزی کرنے اور پولیس افسر کے ذریعہ اختیار کا بیجا استعمال روکنے کے لئے قانون میں تعزیری جرم بنایا جانا چاہیے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا فیصلہ آیا کہ اگر دی گئی جانکاری میں سنگین جرم کے واقع ہونے کا واضح ذکر ہے تو ایف آئی آر درج کرنے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے۔ آج بھی شکایتوں کے درج کرانے کے لئے کسی کو مجسٹریٹ کی عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور معاملے مہینوں تک لٹکے رہتے ہیں۔
یہ عدم کارروائی کا معاملہ نہیں ہے لیکن ایک طرف اختیاری اور منمانی کارروائی کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف پوری طرح سے جرم کے تعلق سے انصاف کا عمل شروع نہیں کرتا ہے۔ اس طرح کی کارروائی اور عدم کارروائی کو قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے بجائے معاملے میں شامل سیاست کی سنک کے ذریعہ یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرکاش سنگھ معاملے میں سپریم کورٹ کے14سال پرانے فیصلے سمیت پولیس کی اصلاح اور جرائم سے متعلق قانون میں سدھار پر کئی رپورٹ جرائم سے متعلق انصاف کے عمل میں کام کرنے کے لئے یقینی کارروائی کی ہدایت کواب تک سیاسی جماعتوں کے ذریعہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ہے۔ بھلے ہی کچھ ہدایتوں کو کچھ ریاستوں نے تسلیم کرلیا ہو لیکن ان کا عملی کام کاج برائے نام ہی ہے۔
1886میں امریکہ کے سپریم کورٹ میں یک وووی ہاپ کنس نے کہا کہ قانون اپنے آپ ہی اور دیکھنے میں غیرجانبدار ہونا چاہیے۔
پھر بھی اگراسے انتظامیہ کے ذریعہ دھندلے اور غیر متوازن ہاتھ سے نافذ اور منظم کیا جاتا ہے تو یکساں طور سے ایک جیسے حالات میں لوگوں کے درمیان ناانصافی اور غیر قانونی امتیاز برتنے کے لئے، ان کے حقوق کے لئے، برابری اور انصاف سے انکار تب بھی آئین کی مخالفت کی طرح ہے۔ بھیم راؤ امبیڈکرنے یہی بات آئین تیار کرتے وقت کہی تھی کہ جب بھی ہمارا جرائم سے متعلق انصاف کا عمل ناکام ہوتا ہے۔ نیا قانون لانے کے لئے شور شرابہ ہوتا ہے۔ ہمارے پاس پہلے سے ہی وافر قانون ہیں اور آئندہ قوانین کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں موجودہ قوانین پر ایماندارانہ عمل آوری کی ضرورت ہے۔ اب جرائم سے متعلق قوانین میں اصلاح پر ایک کمیٹی کام کررہی ہے۔ اس نے اپنے لئے رائے عامہ طے کرلیا ہے اور کئی مسئلوں میں سے ایک ’عوامی تحفظ‘ یقینی بنانے کے لئے قانونی نظام کے ساتھ آتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ کمیٹی ایسا کچھ کرے گی کہ کیسے پولیس کے کام کاج کو جوابدہ بنایا جائے۔ قوانین کو نافذ کرنے اور انہیں سیاست کے چنگل سے آزاد کیسے کیا جائے۔ تب صرف اسی طریقے سے سسٹم کو ہاتھرس آبروریزی معاملے جیسی شرمندگی سے بچایاجاسکے گا۔
(مضمون نگار سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہیں)