شنجوآبے -جاپان کے ایک شاندار سیاست دان،ایک عظیم عالمی سیاست دان، اور ہند -جاپان دوستی کے مضبوط حامی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ جاپان اور پوری دنیا نے ایک عظیم بصیرت والے سیاستدان کو اور میں نے اپنے ایک بہت زیادہ پیارے دوست کو کھو دیا ہے۔میں سال 2000 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر جاپان کے اپنے دورے کے دوران پہلی بار ان سے ملاتھا۔ اس پہلی ملاقات کے بعد سے ہی ہماری دوستی عہدوں کے تمام رسمی اور سرکاری پروٹوکول کی بندشوں سے کہیں آگے نکل گئی تھی۔ کیوٹو میں توجی مندر کا درشن کرنا ، شنکانسین پر ہمارا ٹرین سفر ، احمد آباد میں سابرمتی آشرم کا ہمارادورہ، کاشی میں گنگا آرتی،ٹوکیو میں چائے تقریب ، ہماری یادگار ملاقاتوں کی فہرست واقعی بے حد طویل ہے۔ وہیں ، ماو¿نٹ فوجی کی وادی میں بسے یمناشی صوبے میں ان کے آبائی گھر میں مدعو کئے جانے کے شاندار اعزاز کو میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔یہاں تک کہ جب وہ سال 2007اور سال 2012 کے درمیان اور حال ہی میں سال 2020 کے بعد جاپان کے وزیر اعظم نہیں تھے تب بھی ہمارا ذاتی تعلق ہمیشہ کی ہی طرح بہت زیادہ مضبوط بنارہا۔
آبے سان کے ساتھ ہر ملاقات فکری طور پر بہت زیادہ متاثر کن ہوتی تھی۔ وہ گورنینس، معیشت، ثقافت، خارجہ پالیسی اور مختلف موضوعات پر نئے خیالات اور قیمتی معلومات سے ہمیشہ آگاہ رہتے تھے۔ان کے صلاحکار نے مجھے گجرات کے معاشی اختیارات کے لئے ترغیب دی۔ ان کی حمایت نے جاپان کے ساتھ گجرات کی متحرک شراکت داری کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔بعد میں ہندوستان اور جاپان کے درمیان ا سٹریٹجک پارٹنرشپ میں بے مثال تبدیلی لانے کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا میرے لئے اعزاز کی بات تھی۔ کافی حد تک تنگ اور دو طرفہ اقتصادی تعلقات سے ، آبے سان نے اسے ایک وسیع اور وسیع تر تعلقات کی شکل میں فروغ دینے میں مد د کی۔ جس نے نہ صرف قومی کوششوں کے ہر شعبے کا احاطہ کیا بلکہ یہ دونوں ملکوں کے ساتھ پورے خطے کی سلامتی کے لیے اہم بن گیا۔ان کے لئے یہ دونوں ملکوں اور دنیا کے لوگوں کے لئے نتیجے کی بنیاد پر بننے وا لے سب سے اہم تعلقات میں سے ایک تھا۔وہ ہندوستان کے ساتھ غیر فوجی نیوکلیائی معاہدے کو آگے بڑھانے کے لئے پرعزم تھے، یہ فیصلہ ان کے ملک کے سب سے مشکل ترین فیصلوں میں ایک تھا اور وہ ہندوستان میں ہائی اسپیڈ ریل کیلئے سب سے نرم شرائط کی پیشکش کرنے میں فیصلہ کن رہے۔ آزاد ہندوستان کے سفر میں سب سے اہم کامیابیوں میں سے ایک کے طور پر، انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اگر نیا ہندوستان اپنی ترقی کی رفتار کو تیز کرتا ہے، تو جاپان اس کے ساتھ موجود رہے گا۔ ہندوستان-جاپا ن تعلقات میں ان کی شراکت کے اعتراف میں 2021 میں انہیں باوقار پدم وبھوشن سے نوازا گیا۔آبے سان کودنیا میں رونما ہونے والی پیچیدہ اور مختلف تبدیلیوں کی گہری واقفیت تھی۔
سیاست، معاشرت، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر اس کے اثرات کو دیکھنے کے لئے اپنے وقت سے آگے ہونے کا وژن، ان آپشنز کو جاننے کا علم ، جنہیں پیش کیاجاناتھا۔روایات کے باوجود واضح اور جرا ت مندانہ فیصلے لینے کی صلاحیت اور اپنے دیش واسیوں اور دنیا کے لوگوں کو اپنے ساتھ لے چلنے کی نادر صلاحیت تھی۔ ان کی دور رس پالیسیوں -ایبینامکس- نے جاپانی معیشت کو پھر سے تقویت بخشی اور اپنے لوگوں میں جدت اور کاروبار کے جذبے کو پھر سے روشن کیا۔ ان کی طرف سے ہمیں دیاگیا سب سے قیمتی تحفہ اور ان کی سب سے پائیدار وراثت، جس کے لئے دنیا ہمیشہ ان کی مقروض رہے گی ، ہے ہمارے موجودہ وقت میں بدلتے جوار اور اٹھتے طوفانوں کو پہچاننے کی ان کی دور اندیشی اور ان سے نمٹنے کی ان کی قائدانہ صلاحیت۔ دوسروں کے مقابلے میں بہت ہی پہلے انہوں نے 2007 میں بھارتیہ پارلیمنٹ میں دئے گئے اپنے ایک اہم خطاب کے ذریعے ایک ہم عصر سیاسی، اسٹریٹجک اور اقتصادی حقیقت کے طور پر ہند- پیسفک ریجن، ایک ایسا خطہ جو اس صدی میں دنیا کو بھی نئی شکل دے گا، کے عروج کی بنیاد کو تیارکیا ۔ میں ہندوستان کے عوام کی طرف سے اور اپنی طرف سے جاپان کے لوگوں،خاص طور پر محترمہ اکی آبے اور ان کے کنبے کے تئیں دل کی گہرائیوں سے اظہار تعزیت کرتا ہوں۔ اوم شانتی۔