Nomination of a former CJP for the post of caretaker prime minister is just to influence the courtتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد:(اے یو ایس )پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال حزب اختلاف کے سابق قائد میاں محمد شہباز شریف کے وکیل کی اس دلیل سے متفق ہو گئے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ سے کہا کہ عمران خان کے ذریعہ ایک سابق چیف جسٹس کو نگراں وزیر اعظم مقرر کرنا نہ صرف عمران خان کی سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونے کی ایک چال ہے بلکہ اس میں بدیانتی کی بو بھی آرہی ہے۔ اس دلیل کو سننے کے بعد 3اپریل کو رونما ہونے والے واقعات کی سماعت کے لیے تشکیل دی گئی پانچ رکنی بنچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ”جی، آپ بجا فرما رہے ہیں“۔واضح ہو کہ دو روز قبل سبکدوش وزیراعظم عمران خان نے عدالتِ عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس گلزاراحمد کو نگران وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا ۔سبکدوش وزیراطلاعات فواد چودھری نے سوموار کو ایک بیان میں کہا کہ عمران خان نے سابق چیف جسٹس کو نامزد کرنے کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کورکمیٹی کی منظوری کے بعد کیا ہے۔

سبکدوش وزیراعظم کی جانب سے صدرکو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ”میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس جسٹس ریٹائرڈ جسٹس گلزاراحمد کے نام کی تجویز پیش کرتا ہوں۔انھیں نگراں وزیراعظم مقررکرنے پرغور کیا جائے“۔ان کی نامزدگی صدرڈاکٹرعارف علوی کی جانب سے وزیراعظم اور تحلیل شدہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو لکھے گئے خط کے بعد کی گئی ہے۔اس خط میں آئین کے آرٹیکل 224-اے(1) کے تحت قائدایوان اور قائدحزب اختلاف کو نگران وزیراعظم کے طور پر تقرر کے لیے مناسب افراد کے نام تجویز کرنے کا کہا گیا تھا۔یہ خط قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکرکی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی اجازت نہ دینے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔ صدر نے اتوار کوعمران خان کے مشورے پر پارلیمان کے ایوان زیریں کو تحلیل کردیا تھا۔اس کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی تھی۔صدر نے کہا کہ وزیر اعظم عمران آئین کے آرٹیکل 224-اے(4) کے تحت نگران وزیراعظم کے تقررتک اپنا عہدہ برقرار رکھیں گے۔

صدرعلوی نے خط میں کہا ہے کہ اگر وہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے تین دن کے اندرنگران وزیراعظم کے تقررپر متفق نہیں ہوتے تو وہ دونامزد افراد کے نام اسپیکر کی تشکیل کردہ کمیٹی کو بھیج یں گے۔اس کمیٹی میں سبکدوش ہونے والے قومی اسمبلی یا ایوان بالا سینیٹ کے آٹھ ارکان یا دونوں میں سے ارکان شامل ہوں گے۔اس میں سبکدوش حکومت اور اپوزیشن کی یکساں نمائندگی ہوگی۔تاہم، پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں محمد شہبازشریف نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس ”غیرقانونی “عمل میں حصہ نہیں لیں گے۔انھوں نے کہا کہ صدر اور وزیر اعظم نے آئین اورقانون توڑا ہے۔اس لیے وہ اپوزیشن سے کیسے رجوع کرسکتے ہیں۔جسٹس گلزاراحمد نے 21 دسمبر 2019 کو پاکستان کے 27 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور انھوں نے فروری 2020 تک چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔وہ 2 فروری 1957 کوکراچی میں ایک ممتاز وکیل نور محمد کے خاندان میں پیدا ہوئے۔

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے ابتدائی تعلیم شہر کے گلستان اسکول سے حاصل تھی۔ اس کے بعد انھوں نے گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی سے بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعدانھوں نے ایس ایم لا کالج کراچی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔انھوں نے 18 جنوری 1986 کوایڈووکیٹ کے طور پر اپنا اندراج کرایا تھا اور 4 اپریل 1988 کو ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا۔اس کے بعد وہ 15 ستمبر2001 کو سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔جسٹس گلزاراحمد سال 1999-2000 کے لیے کراچی میں سندھ ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے اعزازی سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔انھوں نے وکالت کے دوران میں زیادہ تر سول کارپوریٹ مقدمات کی پیروی کی اور متعدد کثیرقومی اور مقامی کمپنیوں، بینکوں اور مالیاتی اداروں کے قانونی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔جسٹس گلزاراحمد کو27 اگست 2002ئ کو سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) کا جج مقررکیا گیا تھا۔ان کا 14 فروری 2011 کو ہائی کورٹ کے ”سینیرپیونی جج“ کے طور پر نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا تھا اور اسی سال کے آخر میں 16 نومبر کوانھیں ترقی دے کرعدالتِ عظمیٰ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *