OPINION: Will the death of Sajid Hussain be Pakistan’s Khashoggi moment?تصویر سوشل میڈیا

30 اپریل کو ، سویڈش پولیس نے جلاوطن صحافی ساجد حسین کے اہل خانہ کو ، جو 2 مارچ سے لاپتہ تھے ، کو مطلع کیا کہ اس کی نعش اپسالہ کے دریائے فیرس سے برآمد ہوئی ہے۔ ساجد کے پسماندگان میں اہلیہ اور دو بچوں سمیت ایک بڑا کنبہ ہے۔39 سالہ ساجد نے اپنے کیریئر کا آغاز پاکستان کے دو مشہور روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور دی نیوز انٹرنیشنل سے کیا اور پھر متعدد بڑے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے لیے لکھتے رہے۔ 2012 میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں ان کی رپورٹنگ کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھےجس کے نتیجے میں پاکستان کی پولیس نے ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا اور ان کے اہل خانہ سے تفتیش کی تھی۔ انہیںجان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملی تھیں۔2017 کے بعد سے ، وہ ایک پناہ گزیں کے طور پر سویڈن میں رہائش پذیر تھے جہاں انہیں 2019 میں سیاسی پناہ دے دی گئی تھی۔ وہ بلوچستان کے معاملات اجاگر کرنے والے ایک آن لائن پورٹل بلوچستان ٹائمس کے چیف ایڈیٹر تھے ۔سویڈش پولیس کے ترجمان جوناس ایرونن نے دی گارجین کو بتایا کہ کسی جرم سے اگرچہ مکمل طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم یہ بھی کہا کہ ساجد کی موت حادثہ یا خودکشی بھی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم نے کچھ شبہات کو دور کردیا ہے کہ وہ کسی جرم کا نشانہ بنا تھا۔تاہم ، رپورٹرز ودگھ آو¿ٹ بارڈرز کی سویڈش شاخ کے سربراہ ، ایرک ہلک جائر کا کہنا ہے کہ جب تک کہ کسی جرم کو خارج نہیں کیا جاسکتا ، تب تک یہ خطرہ باقی ہے کہ ان کی موت صحافی کی حیثیت سے ان کے کام سے وابستہ ہے۔آر ایس ایف کے مطابق ساجد کیمتنازعہ شخصیت کے باعث اس امر کو خارج ازمکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ انہیںپاکستانی خفیہ ایجنسی کے کہنے پر اغوا ور پھر ہلاک کیا گیا تھا۔”اسے کیوں نشانہ بنایا گیا؟ساجد حسین پہلے وہ صحافی تھے جنھوں نے چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیایٹیو (بی آر آئی) کے پاکستانی مرحلہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ،جو بلوچستان کا راستہ کاٹتا ہے، خلاف لکھا ، ۔ اس کے بارے میں انہوں نے ممتاز بین الاقوامی اخبارات میں لکھا اور غیر ملکی صحافیوں کے اشتراک سے بھی اس پر مضامین لکھے۔ جس کی وجہ سے وہ پاکستان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے ۔ منشیات کی اسمگلنگ اور لاپتہ افراد ان کے دیگر اہم موضوعات تھے ۔ یہ بھی افواہ گردش کر رہی ہے کہ جس وقت وہ لاپتہ ہوئے تو وہ انسانی حقوق کی صورت حال پر لکھ رہے تھے۔بین الاقوامی میڈیا کے لئے بلوچستان ایک ممنوعہ علاقہ ہے۔9سال سے اسلام آباد میں دی گارجین اور دی نیویارک ٹائمز کے نمائدے کے طور پر کام کرنے والے ڈیکلن والش کو 2013 میں بلوچستان سے متعلق اپنی “ناپسندیدہ سرگرمیوں” کی وجہ سے 72 گھنٹوں کے اندر اندر پاکستان چھوڑنے کہہ دیاگیا تھا۔نیویارک ٹائمز کی خاتون نامہ نگار کارلوٹا گیل 2006 میں کوئٹہ میں ایک رپورٹ تیار کرنے کے بعد بغیر اجازت کوئٹہ جانے پر پاکستانی اہلکاروں نے ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں حراست میں لیا تھا۔2014 میں ، برطانوی صحافی ولیم مارکس کو ان کی تصنیف” بلوچستان: ایک دو راہے پر“ کی اشاعت کے بعد ، لاہور ادبی میلے میں شرکت کے لئے پاکستان میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔سینئر پاکستانی صحافی حامد میر پر گولی چلانےکے بعد ، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے عہدیدارحامد میر سے اس لیے ناراض تھے کیونکہ انہوں نے ماما قدیر کو اپنے ٹاک شو میں بلوچیوں کی گمشدگی پر ہونے والے احتجاجی مارچ پر بات کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔سماجی کارکن سبین محمود کوماما قدیر ،بنوک فرزانہ بلوچ اور میر محمد علی تالپور کے ساتھ بلوچستان کے حالات پر ایک ٹاک شو کرنے پر کراچی میں واقع ان کی بک شاپ پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ایک دوست کے مطابق جس وقت کارلوٹا گیل کو گرفتار کیا جارہا متھا تو وہ اسی کے ساتھ تھے ۔ وردی والوں کو دیکھ کر اس نے ساجد سے کہا کہ وہ چلا جائے کیونکہ وہ پریشانی میں پڑ سکتا ہے۔ وہ جانتی تھی کہ چونکہ وہ غیر ملکی ہے اور پاکستان اسے ہلاک کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔اسی وقت ساجد کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور اس کا لیپ ٹاپ چھین لیا گیا اور اس کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ساجد بیرون ملک سے اپنی صحافتی ذمہ داری ادا کرتے رہے ۔ وہ سویڈن میں بودو باش اختیار کرنے سے پہلے متحدہ عرب امارات ، عمان اور پھر یوگنڈا میں قیام کرتے رہے۔ساجد مقتول سینئر بلوچ قوم پرست رہنما شہید غلام محمد بلوچ کے بھتیجے ہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے صدر غلام محمد بلوچ ، بی این ایم کے لالا منیر ، اور بلوچ ریپبلکن پارٹی (بی آر پی) کے شیر محمد بلوچ کو 3 اپریل 2009کو تربت میں ان کے وکیل کچکول علی کے چیمبر سے اٹھایا گیا۔ اس دن انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) تربت نے ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔ تب انھیں مشرف پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہلاک کر کے 40 کلومیٹر دور پہاڑیوں میں پھینک دیا گیا” ۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد یہ واقعہ بلوچ قوم پرستوں اور چھاپہ ماروں کو پاکستان کے خلاف کھڑا کر دینے کا دوسرا بڑا محرک تھا ۔یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ان کے کچھ دوست اور ان کے کنبہ کے زیادہ تر افراد غیر فطری موت مرگئے۔ ساجد بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے رکن تھے۔ ان کے دو ہم جماعت ، حکیم اور فیصل ( جو خود بھی بی ایس او کے رکن تھے) کراچی میں امریکی قونصل خانے میں کام کرتے تھے۔ وہ بھی پر اسرار حالات میں غیر فطری طور پر مردہ پائے گئے۔ حکیم کو زہر دیا گیا جبکہ فیصل ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوا۔ ان کے کنبہ کے بیشتر افراد کی بھی فطری موت نہیں ہوئی تھی۔ کراچی میں ایجنسیوں نے ان کے ماموں یوسف اور ان کے کزن آصف کو پکڑ لیا۔ منڈ میں آصف کے ایک بھائی کو ڈیتھ اسکواڈنے ہلاک کردیا۔ ایک ہفتہ پہلے ایک اور قریبی رشتہ دار زاہد مارا گیا تھا۔
پریس آزادی اور سنسرشپ:
سینئر صحافی گل بخاری کو ، جو پاکستانی نژاد ایک برطانوی شہری ہیں،بار بار ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔ ا نہیں لاہور میں فوج کے زیر انتظام چھاو¿نی والے علاقے میں نقاب پوش افراد نے اغوا کر لیا تھا اور کئی گھنٹے بعد چھوڑا۔ اسی سال فروری میں پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ایک بیان جاری کیا جس میںبرطانیہ میں مقیم گل بخاری سے کہا گیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف اپنے مبینہ آن لائن پروپیگنڈاکے بارے میں پوچھ گچھ کے لئے 30 دن کے اندر ان پاکستان پہنچ جائیں۔ بصورت دیگر ایف آئی اے ان کے خلاف دہشت گردی کے الزامات دائر کرے گی۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ پاکستانی فوج نے 16 فروری کو ایک ٹویٹ کے توسط سے ان کے بیٹے کو جان سے مارنے کی دھمکی دی ۔سی پی جے (کمیٹی برائے تحفظ صحافیان) کے مطابق ، 2 فروری کو ،پاکستان منحرف اور انسانی حقوق کے کارکن احمد وقاص گوریا کو ہالینڈ میں ان کے گھر کے باہر گھات لگائے بیٹھے غنڈوں نے ، جس کا الزام انہوں نے پاکستانی سرکاری ایجنٹوں پر لگایا ، لات گھونسے برسائے۔ انہوں نے سی پی جے کو بتایاکہ اس واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس حملہ میں معمولی طور پر زخمی ہوئے۔ جلاوطن صحافی طٰحہصدیقی نے پچھلے سال واشنگٹن پوسٹ اوپیڈ (op-ed ) میں لکھا تھا کہ انھیں اور دیگر منحرفین کو امریکی حکام نے ان پر ممکنہ حملوں کا انتباہ دیا تھا۔ وقاص گوریا نے کہا کہ انہیں 2018 میں امریکی حکام کی طرف سے ایسا ہی انتباہ دیا گیا تھا۔ طٰحہ نے خود اسلام آباد میں اپنے اوپر ناکام قاتلانہ حملے اور ہر بار گھر سے باہر نکلنے پر خوف محسوس کرنے کے بارے میں لکھا تھا۔
پاکستان میڈیا گھرانوں کودھمکیوں اور مالی طور پر دبا سنسرشپ بھی لگایا ہوا ہے اور اس الزام سے صاف بچا ہوا بھی ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے نقادوں کو خاموش بھی کرایا جارہا ہے۔ میں نے یورپ میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے کچھ بلوچ قوم پرستوں سے بات کی ہے وہ پریشان ہیں۔ کیوں کہ وہ اس قتل کو اپنے لیے ایک پیغام کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جرمنی میں بلوچ کارکنوں کو ماضی میں دھمکیاں ملتی رہی ہیں اور برطانیہ میں بی این ایم کے بین الاقوامی نمائندے حمال حیدر پر خنجر سے قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔

(اویک سین ایک آزاد صحافی ہے جنہوںنے سائبر سیکیورٹی اور پاکستان ، افغانستان ، ایران اور بنگلہ دیش پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ہندوستان کے پڑوس کی جغرافیائی سیاست پر بہت لکھا ہے ۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *