مسئلہ کشمیر میں مداخلت کرنے سے سعودی عرب کے انکار کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیانیہ سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں بے چینی اور غصہ پایا جا رہا ہے اورانہیں زبردست ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان اختلافات اس وقت منظر عام پر آگئے جب پاکستان سعودی عرب کو ایک بلین امریکی ڈالر واپس کر دیے۔اس پاکستانی اقدام سے اس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے کہ پاکستان بتدریج دیگر مسلم ممالک کی حمایت سے محروم ہو رہا ہے۔
حال ہی میں دو پاکستانی صحافیوں رؤف کلاسرا اور عامر متین نے پاکستان کے تئیں سعودی عرب کی پالیسی میں اچانک تبدیلی پر ایک مباحثہ کا انعقاد کیا۔متین نے اس قسم کے بیانات جاری کرنے پر قریشی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”کبی کبھی قریشی جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ پاکستان کا، جو مالی بحران میں مبتلا ہے،سعودی عرب پر انحصار ہے اس لیے قریشی کو اس قسم کے بیانات جاری کرنے میں اور بھی احتیاط برتنا چاہئے۔متین نے مزید کہا کہ چونکہ ہم سعودی عرب پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اس لیے ہمیں ایک حد تک شکوہ کرنا چاہئے۔
ایسی صورت حال میں قریشی کو بہت محتاط رہنا چاہئے کیونکہ محمد بن سلمان نوجوان اور غیر مہذبانہ اور بدتمیزی رویے کے حامل شخص ہیں ۔متین نے مزید کہا کہ ایسی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ سعودی عرب اگر پاکستان کا دوست ہے تو وہ خود بخود کشمیر پر ہندوستان کے موقف کے خلاف ہو جائے گا۔یہ کوئی اسکول کالج نہیں بلکہ بین الاقوامی میدان ہے۔یہ صورت حال اس طرح پید اہوئی کیونکہ جب سے ہندوستان نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ370 ختم کی ہے اسی وقت سے پاکستان تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی ) کے وزراءخارجہ کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ایک پاکستانی سفارتی ذرائع نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ سعودی عرب نے کشمیر پر او آئی سی کے وزراءخارجہ کا فوری اجلاس بلانے کی درخواست منظور کرنے میں پس و پیش کیا تھا۔علاوہازیں 22مئی کو کشمیر پر او آئی سی کے رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا ” وجہ یہ ہے کہ ہماری کوئی آواز نہیں ہے اور ہمارے درمیان اختلاف رائے ہے۔حتیٰ کہ کشمیر پر او آئی سی اجلاس طلب کرنے کے لیے بھی ہم متحد نہیں ہو سکتے۔