سہیل انجم

پاکستان کا معاملہ عجیب ہے۔ وہاں کب کس سیاست داں کو پھانسی ہو جائے او رکب کس کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جائے کہا نہیں جا سکتا۔ پچھلے دنوں جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سخت عدالتی فیصلے آئے اور انھیں جیل میں ڈال دیا گیا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے لیے پھانسی کا پھندہ تیار ہو رہا ہے اور جس طرح جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا تھا اسی طرح عمران خان نواز شریف کو لٹکا دیں گے۔ لیکن بہر حال نواز شریف کو رہا کیا گیا اور انھیں بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ اچانک ایک فیصلہ آتا ہے جو پوری دنیا کو چونکا دیتا ہے۔ فیصلہ سابق فوجی آمر اور صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آتا ہے۔ انھیں سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایک جج نے اس قدر سخت رخ اختیار کیا کہ انھوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر پرویز مشرف کا انتقال ہو جاتا ہے اور وہ مردہ پائے جاتے ہیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک پر لٹکائی جائے اور تین دن تک لٹکائی رکھی جائے۔ خیال رہے کہ پرویز مشرف اس وقت سخت بیمار ہیں اور دبئی میں بغرض علاج مقیم ہیں۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشرف کو اپیل کا اختیار تو ہے لیکن اس سے قبل انھیں خود کو سرینڈر کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ اپیل کر سکیں گے۔ یعنی اگر وہ چاہیں کہ وہ وہیں رہیں اور یہاں ان کے وکلا اپیل دائر کریں تو یہ ممکن نہیں ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا قصور کیا ہے؟ اور انھیں کیوں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے؟ در اصل ان پر الزام ہے کہ انھوں نے 2007 میں آئین کو معطل کرکے جس طرح ایمرجنسی نافذ کی تھی وہ ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ تین نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کی تھی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹوں کے ججوں کو گھروں میں نظر بند کر دیا تھا۔ پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین غداری کا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع کرائی۔ لا ڈویژن کے مشورے کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا بتایا گیا۔ سنگین غداری کا یہ مقدمہ 6 سال سے زائد چلا۔ وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔ خصوصی عدالت کی متعدد دفعہ تشکیل نو ہوئی اور جج بدلتے رہے۔ سات ججوں نے مقدمہ سنا۔ بالآخر 17 دسمبر 2019 کو جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی۔

اس فیصلے پر فوج نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کے تفصیلی فیصلے سے وہ خدشات درست ثابت ہو گئے ہیں جن کا اظہار پہلے کیا گیا تھا۔ ہم ملک اور ادارے کی عزت اور وقار کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور اس کا بھر پور دفاع کریں گے۔ تفصیلی فیصلے میں استعمال کیے گئے الفاظ انسانیت، مذہب تہذیب اور ہر قسم کی اقدار سے بالاتر ہیں۔ ہم اندرونی و بیرونی دشمنوں کو ناکام کریں گے اور ان کے آلہ کاروں کو بھرپور جواب دیں گے۔ ہم اپنے بڑھتے ہوئے قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔ پرویز مشرف کے خلاف فیصلے سے متعلق وزیر اعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تفصیلی بات ہوئی ہے۔ جس میں فیصلے کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ دینے والے بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق ایسے جج کو عدلیہ کا حصہ بنے رہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ جج ذہنی طور پر عدلیہ میں کام کرنے کے لیے فٹ نہیں ہیں۔ اگر کوئی بھی جج ایسی آبزرویشن دیتا ہے تو یہ عدلیہ کے لیے بہتر نہیں ہے۔ فیصلے کے پیرا 66 میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کی لاش کو تین دن تک ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔ سر عام پھانسی اسلامی روح کے خلاف ہے۔ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ یہ تضحیک آمیز ہے۔ وزیر نے سوال اٹھایا کہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ جج نے ایسا فیصلہ کیوں دیا۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج ہونے کا حق نہیں۔ فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ عدلیہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کو کام سے فی الفور روک دے۔ ہم بہت جلد آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے جا رہے ہیں۔

اگر پاکستان کے آئین کو دیکھا جائے تو سنگین غداری ایکٹ 1974 کے تحت کوئی بھی شخص اگر پاکستان کے آئین کو منسوخ کرنے کی سازش یا کوشش کرنے کے نتیجے میں پکڑا جائے یا مجرم قرار دیا جائے تو اس کو عمر قید یا سزائے موت دی جاتی ہے۔ قانونی ماہر اور وکیل اسد جمال کے مطابق اس میں سب سے زیادہ اضافہ آمریت کے ادوار میں دیکھا گیا ہے جن میں جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار سر فہرست ہیں۔ اسد جمال کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ کیا آئین شکنی اتنا بڑا جرم ہے کہ سزائے موت دی جائے؟ سنگین غداری ایکٹ 1974 میں ترمیم کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ اکیسویں صدی کے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتا۔ انھوں نے پاکستان میں جرم کی سزاو¿ں میں سختی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی طرف سے اس قسم کی زبان کا استعمال اور فیصلے کا سامنے آنا بذات خود ایک پریشان کن عمل اس لیے ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کو مزید متشدد بنا رہا ہے۔

اس فیصلے کے بعد اس پر خوب رد عمل سامنے آرہا ہے۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے تو کوئی کچھ۔ 2014 میں کراچی کے پریس کلب میں آل پاکستان مسلم لیگ اور ایک مذہبی جماعت کی مشترکہ تقریب کے دوران پرویز مشرف مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھے۔ جب ان کی خطاب کرنے کی باری آئی تو انھوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں موجود صحافیوں کے سامنے کہا کہ ”مجھ پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے، میں نے کیا نہیں کیا ملک کے لیے اور وہ بھی پاکستان کی آئین شکنی کا الزام؟ آئین کیا ہے؟ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے“۔ اسی کاغذ کے ٹکڑے کو 3 نومبر 2007 کو منسوخ کرنے کے جرم میں 17 دسمبر 2019 کو جب ان کو تین رکنی بنچ پر مبنی خصوصی عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا تو ایک بھرپور ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر جسٹس سیٹھ کے تفصیلی فیصلے کے اس جملے کو بار بار شیئر کیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اگر سابق آرمی چیف پرویز مشرف سزا سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں تو اس صورت میں ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک پر تین دن کے لیے لٹکایا جائے۔ ایک سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ پاکستان نے آئین بنایا یا آئین نے پاکستان؟ اس بارے میں صحافی اور تجزیہ کار محمد ضیاالدین نے کہا کہ ہمارے اداروں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان نے آئین بنایا ہے، جو کہ غلط ہے۔ دراصل آئین نے پاکستان بنایا ہے۔

اس بارے میں اخبارات میں بھی خوب مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ یہاں ہم دو مضامین کے چند اقتباسات قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ روزنامہ جنگ کے معروف کالم نگار انصار عباسی نے ”ابو بچاو¿ مہم“ کے زیر عنوان اپنے کالم میں لکھا ہے:

”عمران خان کے وزیر ریلوے شیخ رشید جو مشرف کے بھی وزیر رہے، نے مشرف کی حب الوطنی کی قسمیں کھائیں۔ کچھ عرصہ قبل پرویز مشرف کے ترجمان اور خان صاحب کی موجودہ حکومت کے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری بھی ٹی وی چینل پر مشرف کے خلاف فیصلے پر اپنا دکھڑا بیان کرتے سنائی دیے۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیر ندیم افضل چن وہ واحد حکومتی اور تحریک انصاف کی شخصیت ہیں، جنہوں نے اس فیصلے پر سیخ پا ہونے والوں کو مشورہ دیا کہ صبر کریں، قانون کی حکمرانی کو تسلیم کریں اور آگے چلیں۔ انہوں نے خوب کہا کہ ”اس ملک میں وزرائے اعظم کو پھانسی بھی دی گئی، انہیں ملک بدر بھی کیا گیا، انہیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے نکال باہر بھی کیا گیا، بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کیا گیا لیکن معاشرہ آگے چلتا رہا، کوئی رکا نہیں، بڑے بڑے واقعات ہوئے، کوئی confrontation (محاذ آرائی) کی طرف نہیں گیا، اگر ہم کو اس ملک میں رہنا ہے اور ہمارے بچوں کو یہاں رہنا ہے تو پھر ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ یہ ملک کسی ایک شخص کا یا چند افراد کا نہیں بلکہ یہ ملک ان کا بھی ہے جن کی کوئی آواز نہیں اور جن کی سیاستدان نمائندگی کرتے ہیں، رول ماڈل سب کو بننا پڑے گا۔ جب عدالتیں فیصلہ کریں اور جن کے خلاف فیصلہ ہو، وہ ڈنڈا لے کر کھڑے ہو جائیں تو اس طرح معاملات نہیں چل سکتے، ہمیں تحمل کے ساتھ اس ملک کو آگے لے کر چلنا چاہیے، اداروں کو بیچ میں مت لائیں“۔ گزشتہ روز ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں فوجی ترجمان کی طرف سے مشرف کے فیصلے کے خلاف افواج پاکستان کے اندر پائے جانے والے غم و غصہ کی ترجمانی کو اصل صورتحال کے مقابلہ میں کم گردانا اور سوال اٹھایا کہ اس فیصلے کو فوج کیسے قبول کر سکتی ہے۔ مشرف کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے پاکستان کی بہت خدمت کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مشرف نے دو بار اس ملک میں اپنی ذات کی خاطر مارشل لا لگایا اور آئین سے غداری کی۔ باقی جو انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کیا اس بارے میں میرا مشرف کو ہیرو سمجھنے والوں کو مشورہ ہے کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ پڑھ لیں کہ مشرف نے پاکستان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا“۔

جبکہ ایک اور کالم نگار مظہر برلاس نے ”تیز آندھی کا انتظار“ کے زیر عنوان لکھا ہے:
”مشرف کے دیے گئے بیان پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے، آپ کو تو پتا ہی ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پرویز مشرف کا ہی عطا کردہ ہے۔ قانونی ماہرین اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوالات کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے، کیا مشرف کو سنا گیا؟ جبکہ اسی دوران بیماری کی بنیاد پر کئی لوگوں کی سزائیں معطل کی گئیں۔ عدالت ملزم کو دفاع کا استحقاق دیتی ہے تو یہ استحقاق مشرف کو کیوں نہ دیا جا سکا؟ 2010میں بننے والے قوانین کا 2007کی ایمرجنسی پر اطلاق کیسے ہو گیا؟ میرے خیال میں پرویز مشرف کیس میں قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے، سنگین غداری کیس میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ ایک بات سچ ہے کہ پاکستان میں کوئی پارٹی جمہوری نہیں، خاندانی پارٹیاں ہیں۔ جس دن مشرف کو سزا دی گئی اسے یومِ سیاہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اعتزاز احسن سمیت نامور وکلا کی رائے سامنے آچکی ہے۔ ایک بات اور بڑی اہم ہے کہ آخر نون لیگ کی حکومت نے بارہ اکتوبر 1999کا قصہ کیوں نہیں کھولا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس وقت غدار کوئی اور تھا، کہیں ایسا تو نہیں کہ مشرف کو قبول کر لینے والی عدلیہ میں وہ نام بھی آتے ہیں جو نون لیگ کے چہیتے تھے، جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا۔ اگر یہ مقدمہ 12اکتوبر سے کھلتا تو پھر اس کا تذکرہ بھی ہوتا کہ کون طیارے کو اترنے نہیں دے رہا تھا۔ آئین توڑنا غداری ہے تو پھر آئین تو 12اکتوبر کو توڑا گیا تھا، نومبر 2007میں تو ایمرجنسی لگی تھی، ایمرجنسی لگانے کیلئے بھی وزیراعظم نے صدر کو ایڈوائس دی تھی۔ اگر سب کچھ درست مان لیا جائے تو پھر پرویز مشرف کے دور میں حلف اٹھانے والے وزرائے اعظم، وزرا اور ججوں کے بارے میں کیا خیال ہے، 2008میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے وزرا نے مشرف سے حلف لیا تھا، حلف اٹھانے والوں میں تو خواجہ آصف، احسن اقبال اور سعد رفیق بھی تھے، مفرور اسحاق ڈار بھی۔ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کس نے پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا، کس نے ایکسٹینشن دی؟ جن لوگوں کے ووٹوں سے پرویز مشرف صدر بنے ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہاں ایک اور واقعہ رقم کر دیتا ہوں کہ یکم محرم بمطابق 20نومبر 1979کو منگل کے روز جب صبح سویرے امام کعبہ شیخ عبداللہ بن سبیل کو چند افراد نے گھیرا، خانہ کعبہ کے تمام دروازے بند کرکے وہاں قابض ہونے کی کوشش کی تو اس کوشش کو پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز کے جس دستے نے ناکام بنایا اس کی قیادت میجر پرویز مشرف کر رہا تھا۔ صاحبو! چلی ہے رسم تو پھر والیم ٹین، میمو گیٹ اور ڈان لیکس کھول دیں۔ ماڈل ٹاﺅن بھی کھول دیں۔ قائداعظم اور پاکستان کو برا بھلا کہنے والوں کو بھی سامنے لے آئیں۔ خیبر پختونخوا کو افغانستان کہنے والوں سے بھی پوچھ گچھ کرلیں۔ بلدیہ ٹاﺅن اور بارہ مئی کے واقعات بھی سامنے لے آئیں۔
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر
اتنے نہ در بناﺅ کہ دیوار گر پڑے“۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *