Hurry to the door of heaven before it closedفائل فوٹو

سہیل انجم

:پہلے یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیے
مہاراشٹرا کے ناسک ضلع میں ایک قصبہ ہے منماڈ۔ وہ ممبئی سے 254 کلومیٹر شمال میں ہے۔ وہاں منجولتا کاشی ساگر نام کی ایک خاتون رہتی تھی۔ اس کے شوہر کا کئی سال قبل انتقال ہو چکا تھا۔ اس کے شوہر کی تدفین منماڈ ہی کے عیسائی قبرستان میں ہوئی۔ منجولتا نے اپنے اعزا کے سامنے یہ خواہش رکھی کہ جب وہ مرے تو اسے اس کے شوہر کی قبر کے برابر دفن کیا جائے۔ اس کے بیٹے سوہاس نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی خواہش ضرور پوری کرے گا۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔سوہاس منماڈ سے 37 کلومیٹر دور مالیگاؤں میں کام کرتا ہے۔ کرونا وبا کے دوران منجولتا بھی اپنے بیٹے کے پاس چلی گئی تھی۔ وہ پانچ سال سے دل کے عارضے میں مبتلا تھی۔ اچانک ستمبر میں وہ بیمار پڑی اور 21 ستمبر کو 76 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔ انتقال اسپتال میں ہوا۔

منجولتا کے انتقال سے قبل اس کا کرونا کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ لیکن رپورٹ آنے سے قبل ہی اس کی موت ہوگئی۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ چونکہ اسے نمونیا ہو گیا تھا اس لیے ممکن ہے کہ اس کو کرونا بھی ہو گیا ہو۔ سوہاس نے بہت کوشش کی تھی کہ اسپتال کے ذمہ دار اس کی ماں کی لاش منماڈ لے جانے کی اجازت دے دیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ جب تک رپورٹ نگیٹیو نہیں آجاتی اس کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وہ لاش اسپتال میں چھوڑ کر چلا آیا۔ اگلے روز یعنی 22 ستمبر کو اسپتال سے اس کے پاس فون آتا ہے کہ وہ اپنی ماں کی لاش لے جا کر دفن کر دے ورنہ وہ لوگ خود ہی اس کا کریا کرم کر دیں گے۔ لہٰذا مجبور ہو کر اس نے مالیگاؤں کے سینٹ پال چرچ میں عیسائی رسوم و رواج کے مطابق اپنی ماں کی تدفین کر دی۔ لیکن اس کے دل میں ایک خلش پیدا ہو گئی کہ وہ اپنی ماں کی آخری خواہش پوری نہیں کر سکا۔ لہٰذا وہ اس خواہش کی تکمیل میں سرگرداں ہو گیا۔چالیس سالہ سوہاس کا کہنا ہے کہ جب سے میری ماں بیمار پڑی وہ مجھ سے بار بار یہی کہتی کہ اسے منماڈ کے برناڈا چرچ کے قبرستا ن میں جہاں اس کے شوہر کو 1994 میں دفن کیا گیا تھا وہیں اس کے برابر میں دفن کیاجائے۔ میرے گھر کا ہر مرنے والا وہیں دفن ہے۔ میرے دادا، دادی اور چاچا، چاچی سب وہیں دفن ہیں۔ بہرحال 24 ستمبر کو سوہاس کے پاس مقامی انتظامیہ سے ایک فون آتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ اس کی ماں کو کرونا نہیں ہوا تھا۔ رپورٹ نگیٹیو آئی ہے۔ اس کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔

اس اطلاع کے بعد اس کے دل کی کسک اور بڑھ گئی۔ اس نے یہ تہیہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے ماں کی لاش کو قبر سے نکال کر منماڈ لے جا کر دفن کرے گا۔ اس کے لیے اس نے مقامی انتظامیہ کا چکر لگانا شروع کر دیا۔ اس نے سیاست دانوں سے بھی ملاقات کی۔ سوہاس کے ایک دوست مالیگاو¿ں کے فیروز شیخ کا کہنا ہے کہ جب بھی پورے دن چکر لگا کر وہ مایوس ہو کر گھر لوٹ کر آتا تو رنج و غم کے مارے رونے لگتا تھا کہ میں اپنی ماں کی آخری خواہش پوری نہیں کر پا رہا ہوں۔ میں اسے بیس اکتوبر کو ایک وکیل کے پاس لے گیا۔ اس نے مدد کا وعدہ کیا۔ اس نے ایک درخواست لکھی جسے ہم نے مالیگاو¿ں میونسپل کارپوریشن کے کمشنر کے دفتر میں جمع کر دیا۔ بالآخر اس کی جد و جہد رنگ لائی۔ مالیگاو¿ں کی سول انتظامیہ نے لاش کو نکال کر منماڈ لے جانے کی اجازت دے دی۔ سوہاس کے مطابق ہم نے پھر دونوں جگہوں کے قبرستانوں کے ذمہ داروں سے بھی اس کی اجازت لی۔ یعنی مالیگاو¿ں کے قبرستان کے ذمہ داروں سے قبر کھود کر لاش نکالنے کی اور منماڈ کے قبرستان کی انتظامیہ سے وہاں لے جا کر دفن کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس کے بعد اس نے تحصیلدار کے دفتر میں درخواست داخل کی۔ تحصیلدار چندرجیت راجپوت سوہاس کی خواہش سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اپنا کیا ہوا وعدہ بھول جاتے ہیں۔ لیکن اس نے یاد رکھا اور اسے پورا کرنے کے جتن کرتا رہا۔ لہٰذا میں نے درخواست ملتے ہی فوری طور پر اسے اس کی اجازت دے دی۔

17 دسمبر کو صبح آٹھ بجے تحصیلدار کی اجازت سے قبر کھودی گئی اور لاش نکال کر منماڈ لے جائی گئی جہاں مقررہ قبرستان میں اسے دفن کیا گیا۔ اپنے پتا کی قبر کے پاس اپنی ماں کو دفن کرنے کے بعد سوہاس کا کہنا تھا کہ آج ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میرے سینے سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا۔ میں نے اپنی ماں کی آخری خواہش پوری کر دی۔ (یہ خبر انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس سے لی گئی ہے)۔ آج کے اس نافرمانی کے دور میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو اپنے والدین کی خواہشوں کا اس طرح احترام کرتے ہوں۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ ماں کی خواہش پوری کرنے کے لیے ایک شخص اتنے دنوں تک جد و جہد کرتا رہا اور بالآخر اس نے تمام رکاوٹیں پار کیں اور انتظامیہ نے اسے اس کی اجازت دے دی۔ حالانکہ وہ یہ سوچ کر صبر کر سکتا تھا کہ اس کی ماں کو وہیں دفن ہونا لکھا تھا اس لیے وہ مالیگاو¿ں آئی اور بیمار پڑی اور اس کی موت ہو گئی۔ یہ خیال دل میں آسکتا تھا کہ اس کی موت اسے وہاں کھینچ لائی تھی اور وہیں اس کی مٹی تھی لہٰذا وہیں اس کی موت ہوئی۔ لیکن سوہاس کا دل نہیں مانا۔ اس کے سینے پر ایک بوجھ تھا کہ وہ کیسے اپنی ماں کی آخری خواہش پوری کرے۔آج تو صورتحال یہ ہے کہ لوگ والدین کی زندگی ہی میں انھیں بھلا دیتے ہیں۔ ان کی خدمت نہیں کرتے۔ ان کی خواہشوں کا احترام نہیں کرتے۔ مرنے کے بعد احترام کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہے۔

اگر ہم یہ کہیں تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ سوہاس نے اپنی ماں کی آخری خواہش کی تکمیل کرکے اپنے لیے جنت خرید لی ہے۔ دنیا میں ہیں ایسے لوگ بھی جو اپنے والدین کی خواہشوں اور ضرورتوں کے احترام میں اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ تعداد میں بہت کم ہیں۔ ہاں میں نے ایسے ہی ایک فرماں بردار اور ماں سے محبت کرنے والے شخص کو دیکھا ہے۔ وہ ابوالفضل انکلیو جامعہ نگر نئی دہلی میں واقع جماعت اسلامی کے اخبار دعوت میں کام کرتے تھے۔ ان کا نام محمد اخلاص تھا۔ وہ اسپورٹس رائٹر تھے۔ رہائش ابوالفضل ہی میں ایک کرائے کے مکان میں تھی لیکن ان کی والدہ پرانی دہلی میں اپنے بڑے بیٹے کے پاس رہتی تھیں۔ وہ جب موقع ملتا پرانی دہلی جاتے۔ خالی ہاتھ نہیں جاتے۔ پان چھالیا اور دیگر تحائف لے کر جاتے۔ ان کے قدموں میں بیٹھ جاتے۔ ان کی خدمت کرتے اور پھر رات میں بس پکڑ کر واپس ابوالفضل چلے جاتے۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ وہ ہمیشہ انتہائی باریک کپڑے کی ٹوپی اوڑھے رہتے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی اتری ہوئی ساڑی سے ٹوپی سلواتے ہیں اور وہی پہنتے ہیں۔لیکن میں نے اپنے گاؤں میں ایک ایسی اولاد کو بھی دیکھا ہے کہ جو دسمبر جنوری کی کڑکڑاتی سردی میں اپنی ماں کو برآمدے میں تنہا چھوڑ دیتا تھا۔ اور بستر کے نام پر ایک ٹاٹ ہوتا اور رضائی یا لحاف کے نام پر ایک بورا ہوتا۔ بیچاری رات بھر سردی کی شدت برداشت کرتی اور بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ گھر کے اندر کوٹھری میں لحاف اوڑھ کر آرام دہ نیند لیتا۔ حالانکہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور بڑی منتوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔

والدین اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ لیکن اس نے اپنی ماں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ دل کو تڑپا دیتا ہے۔ اللہ تمام والدین کو سعادت مند اور فرماں بردار اولاد عطا کرے جو ان کے لیے سہارا بنیں اور ان کی خدمت کرکے اپنے لیے جنت خرید لیں۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *