سہیل انجم
دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر ابن کنول کی اب تک 27 تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ لیکن یہ میری بدقسمتی رہی کہ دہلی میں رہتے ہوئے اور اردو والا ہوتے ہوئے بھی میں نے آج تک ان کی ایک بھی تصنیف کا دیدار نہیں کیا تھا، پڑھنا تو دور کی بات تھی۔ حالانکہ میں انھیں اس زمانے سے جانتا ہوں جب وہ ریسرچ کر رہے تھے اور بٹلہ ہاوس میں مسجد والی گلی میں رہتے تھے۔ البتہ تعارف بہت بعد میں ہوا۔ نہ انھوں نے کبھی مجھے یہ بتانے کی ضرورت محسوس کی کہ میں دو درجن سے زائد کتابوں کا مصنف ہوں، نہ ہی مجھے کبھی یہ جاننے کی خواہش ہوئی کہ ان کے قلم سے کیا کیا گل بوٹے پھوٹے ہیں۔ جبکہ متعدد پروفیسر حضرات یا اردو اساتذہ اور دوسرے قلمکار اپنی تخلیقات از راہ محبت مجھے عنایت کرتے ہیں اور اگر کتاب پسند آجائے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اس پر اظہار خیال کروں۔ کچھ لوگ اس اصرار کے ساتھ کتاب دیتے ہیں کہ اس پر اظہار خیال بھی کرنا ہے۔ لیکن پروفیسر ابن کنول بھی بے نیاز اور خاکسار بھی بے نیاز۔ نہ انھیں کوئی ضرورت پڑی، نہ مجھے۔ حالانکہ ان سے اردو کے پروگراموں میں اکثر و بیشتر ملاقاتیں ہو جاتی ہیں۔ محبت آمیز بے تکلفی سے پیش آتے ہیں۔ بعض اوقات اسٹیج شیئر کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ تاہم میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں سے بے بہرہ ہی رہا۔ کچھ دنوں قبل ان کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ”کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی“۔بعض لوگوں کی زبانی اس کے بارے میں سننے کو ملا۔ پھر مجلہ ”ادب و ثقافت“ میں اس پر تبصرہ بھی پڑھا۔ ادب و ثقافت مولانا آزاد اردو یونیورسٹی حیدرآباد کا شش ماہی ادبی جریدہ ہے۔ تبصرہ پروفیسر محمد ظفرالدین نے کیا ہے۔ تبصرہ پڑھنے کے بعد کتاب کے مطالعہ کی خواہش پیدا ہوئی۔ ابھی اس خواہش کی تکمیل بھی نہیں ہوئی تھی کہ فیس بک پر پروفیسر ابن کنول کی زبانی پڑھا گیا ان کا ایک انشائیہ سنا جو تعزیت کے سلسلے میں تھا۔ اس کو سن کر طبیعت پھڑک اٹھی۔ اسی درمیان مجھے ان سے ایک ضرورت پیش آئی۔ میں نے ان کو فون کیا کہ جناب مجھے آپ سے ملنا ہے اور آپ کی کتاب کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی لینی بھی ہے۔
انھوں نے محبت آمیز انداز میں کہا کہ آپ آئیے میں آپ کو کتاب ضرور پیش کروں گا۔ان کے دولت خانے پر ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بڑی اپنائیت کے ساتھ کتاب دی۔ میں نے جب آخر میں دی گئی ان کی کتابوں کی فہرست پر نظر ڈالی تو چکرا گیا۔ اتنی کتابیں اور میں ایک سے بھی واقف نہیں۔ میں نے اپنی تین کتابیں انھیں پیش کیں۔ جن میں ایک خاکہ نما مضامین کا مجموعہ ”نقش برآب“ بھی تھا۔ انھوں نے کتاب کے آخر میں میری 25 کتابوں کی فہرست دیکھی تو وہ بھی حیران ہوئے۔ انھوں نے حیرت آمیز انداز میں پوچھا کہ اتنی کتابیں آپ کی شائع ہو چکی ہیں۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ پتہ نہیں ان کو یقین آیا یا نہیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے تو کچھ اندازہ نہیں ہوا۔ خیر میں کچھ شگفتگی اور کچھ سنجیدگی کا تحفہ لے کر گھر آیا اور سونے سے قبل جو اس کا مطالعہ شروع کیا تو بیک نشست پانچ خاکے پڑھ ڈالے۔ چند روز کے اندر 260 صفحات پر مشتمل پوری کتاب ختم ہو گئی۔ میں نے کئی قلمکاروں کے تحریر کردہ خاکے پڑھے ہیں۔ لیکن جو لطف ان خاکوں میں آیا وہ عہد حاضر کے کسی اور خاکہ نگار کے خاکوں میں نہیں آیا۔ کچھ خاکوں میں طنز و مزاح کا لطف ہے تو کچھ بہت سنجیدہ ہیں۔ لیکن کوئی خاکہ ایسا نہیں ہے جو قاری کو متاثر نہ کرے۔ یہاں تک کہ آخری خاکہ ان کے ایک سسرالی خادم محمد شریف کا ہے وہ بھی بہترین ہے۔ اس میں باتوں باتوں میں ایسی باتیں کہہ دی گئی ہیں کہ پڑھنے والا غور و فکر میں ڈوب جاتا ہے۔مجموعہ میں کل 25 خاکے ہیں۔ ممدوحین میں قاضی عبد الستار، قمر رئیس، تنویر احمد علوی، گوپی چند نارنگ، عنوان چشتی، حیات اللہ انصاری، محمد عتیق صدیقی، عصمت چغتائی ، قرة العین حیدراورمحمدزماں آزردہ جیسی ادب کی بڑی شخصیات شامل ہیں تو ایڈووکیٹ اے رحمن، پیغام آفاقی، علی احمد فاطمی، اسلم حنیف، شمس تبریزی، ارتضی کریم، خواجہ محمد اکرام الدین، محمد کاظم، جلال انجم، فاروق بخشی، نعیم انیس، اسلم حنیف اور عظیم صدیقی جیسے ان کے دوست احباب اور ادبا و شعرا بھی شامل ہیں۔ ان خاکوں کی متعدد خصوصیات ہیں۔ سب سے بڑی خصوصیت تو زبان کی سادگی و سلاست ہے۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق کے بقول ”سادہ زبان لکھنا آسان نہیں۔ سادہ زبان لکھنے کے یہ معنی نہیں کہ آسان لفظ جمع کر دیے جائیں۔ ایسی تحریر سپاٹ اور بے مزا ہوگی۔ سلاست کے ساتھ لطف بیان اور اثر بھی ہونا چاہیے۔ یہ صرف باکمال ادیب کا کام ہے“۔ ابن کنول کے خاکوں میں آسان الفاظ تو ہیں مگر تحریر سپاٹ نہیں ہے اور لطف بیان سے خالی بھی نہیں ہے۔ (گویا بابائے اردو کی زبان میں ابن کنول ایک باکمال ادیب کا نام ہے)۔ تحریر میں غضب کی روانی ہے۔ آمد ہی آمد ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر خاکہ بیک نشست اور قلم برداشتہ لکھا گیا ہے۔ کہیں بھی بے ربطی یا بے لطفی نہیں ہے۔ تحریر میں جو بہاو¿ ہے وہ قاری کو بہا لے جاتا ہے اور وہ ایک خاکہ ختم کرتا ہے تو دوسرا شروع کر دیتا ہے۔
تنویر احمد علوی کے خاکے کی چند سطور ملاحظہ ہوں، میرے دعوے کی تصدیق ہو جائے گی۔ لکھتے ہیں:
”علوی صاحب دہلی آکر دہلی ہی کے ہو رہے۔ جن گلیوں میں ذوق اور غالب بستے تھے وہیں قیام کیا۔ دہلی کی گلیوں سے ذوق کی طرح محبت ہو گئی۔ پچاس سال سے زیادہ وقت عمر کا دہلی میں گزارا لیکن شاہ جہان آباد کی فصیل سے باہر نہ گھر کرائے پر لیا اور نہ بنایا۔ جبکہ کتنے ہی دہلی والے دہلی اور اس کی تہذیب سے محبت کا دعویٰ تو کرتے رہے لیکن دہلی سے بیوفائی کرکے جمنا پا رجا بسے“۔
اس اقتباس سے دہلی سے علوی صاحب کی محبت تو ظاہر ہی ہوتی ہے، وہ یہ خبر بھی دے دیتے ہیں کہ دہلی سے محبت کا دم بھرنے والے بہت سے لوگ دہلی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔علوی صاحب نے دیوبندبھی تعلیم حاصل کی لیکن ان کے دل میں کچھ اور تھا:
”مدرسوں میں بڑی سختیاں ہوتی ہیں، لیکن شوق اور عشق تو قید و بند ہو یا دیوبند، کسی کی پرواہ نہیں کرتا، دیواریں پھاند جاتا ہے، پہاڑوں میں نہریں نکال لیتاہے ،جس طرح ہمارے استاد ڈاکٹر تنویر احمد علوی کو دیوبند بھیج دیا تھا، لیکن وہاں کا دیو علوی صاحب کو بند نہ کرسکا“
اسی طرح قمر رئیس کے خاکے کی یہ سطور ملاحظہ ہوں:
”نوجوانوں میں قمر رئیس بہت مقبول تھے۔ دراصل ان کی گفتگو اور افعال نوجوانوں جیسے تھے۔ وہ اپنی عمر کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔ خواتین کی طرح اپنی عمر چھپاتے بھی تھے۔ جب پچہتر سال کے ہوئے تو کچھ شاگردوں نے ان کے یوم ولادت پر جشن منانے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے کہا کہ کارڈ میں عمر کا ذکر نہیں کرنا ورنہ کوئی میری طرف دیکھے گا بھی نہیں“۔
اسی تسلسل میں یہ جملے بھی خاصے دلچسپ ہیں:
”قمر رئیس صاحب نسلاً پٹھان ضرور تھے۔ نام بھی گھر والوں نے مصاحب علی خاں رکھا تھا۔ لیکن ان میں سوائے رنگ وروپ کے پٹھانوں والے خصائص نہیں تھے۔ ان میں سیدوں جیسی نفاست و نزاکت تھی۔ اتنے نرم دل تھے کہ جس نے ہنس کے بات کی بس اسی کے ہو لیے۔ خصوصاً اگر سامنے کوئی صنف نازک ہے تو تمام طلاقت لسانی اور شیریں زبانی مع تبسم صرف کر دیتے تھے“۔
”سنا ہے قمر صاحب نوجوانی میں ایسے نہیں تھے، یعنی جب شاہجہاں پور میں تھے نماز بھی پڑھتے تھے اور کبھی کبھی اذان بھی دیتے تھے، لیکن جب جوان ہوکر لکھنؤ آئے تو پڑھے لکھوں کی صحبت میں بگڑ گئے“
جو لوگ قمر رئیس کے مزاج سے واقف ہوں گے وہ ان جملوں سے خوب لطف اندوز ہوں گے۔
خاکوں میں کہیں کہیں تو ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے کہ چند جملوں میں صاحب خاکہ کی بہت سی خصوصیات کی جھلک نظر آجاتی ہے۔ مثال کے طور پر اے رحمن ایڈووکیٹ کے خاکے سے یہ جملے ملاحظہ ہوں:
”دوستی کرتے ہیں تو نبھاتے ہیںاور اگر دشمنی پر اتر آتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ پیشے سے وکیل ہیں۔ دوستی نبھاتے ہیں تو دوسروں سے بھی نبھانے کی توقع رکھتے ہیں۔ دشمنی زیادہ عرصہ تک نہیں رکھ پاتے۔ میں نے اتنے عرصہ میں اے رحمن کے بارے میں جانا ہے کہ برا ہے،بھلا ہے، پیتا ہے، پلاتا ہے، کھلاتا ہے، گھماتا ہے جو بھی ہے اگر وہ کسی کو دوست بناتا ہے یا کہتا ہے تو نبھاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ وہ پوری دنیا میں دوستوں کی اور اردو والوں کی تلاش میں رہتے ہیں“۔
ابن کنول بہت بڑے مردم شناس ہیں۔ کسی کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو پوری طرح ڈالتے ہیں۔ اچھائیاں دیکھتے ہیں تو برائیاں بھی دیکھتے ہیں۔ ظاہری شکل و صورت دیکھتے ہیں تو باطنی بھی دیکھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں بیان کر دیتے ہیں۔ لیکن انداز تحریر ایسا دلچسپ ہے کہ اگر کسی کی کوئی خامی بیان کر رہے ہیں تو وہ بھی برا نہیں مانتا بلکہ محظوظ ہوتا ہے۔ اشاروں اشاروں میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ جن کے کہنے کے لیے دوسروں کو دیر تک ہمت جٹانی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ارتضیٰ کریم کے بارے میں یہ جملہ دیکھیں:
”اس طویل ساتھ میں ایک بات کا اندازہ ہوا کہ اس میں انتظامی صلاحیتیں بہت اعلیٰ درجے کی ہیں۔ ویسے تو تخریبی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ہے“۔
اس اشاراتی جملے میں انھوں نے ارتضیٰ کریم کی شخصیت کے ایک پہلو کو یوں بیان کر دیا ہے جیسے کوئی چلتے پھرتے کوئی بات کہہ دے اور آگے نکل جائے۔ اس جملے میں بھی بہت گہرائی ہے:
”کلام حیدری نے ان کی سرپرستی فرمائی۔ کلام حیدری سے ہمارے مراسم علیگڑھ کے زمانے سے تھے۔ بہت پیارے آدمی تھے۔ ارتضیٰ نے ان کا اثر کم ہی قبول کیا“۔
لیکن اسی کے ساتھ انھوں نے ارتضیٰ کریم کی ہمہ جہت صلاحیتوں کی کھل کر تعریف بھی کی ہے۔
اشاروں اشاروں میں بہت گہری بات کہہ جانے کی مثالیں محمد کاظم کے خاکے میں بھی بہت ہیں۔ لکھتے ہیں:
”ڈرامہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اداکار اور ہدایت کار بھی ہے۔ ڈرامہ ہمیں بھی اچھا لگتا ہے۔ لکھتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں۔ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اداکاری بھی کی ہے۔ ویسے تو اردو والے سبھی اداکار ہوتے ہیں، کچھ کم کچھ زیادہ“۔
”آدمی لکھتا اچھا نہ ہو، بس بولتا اچھا ہو تو مقبول ہوجاتا ہے۔ مثلاً مشاعرے والے شاعر جتنے عوام میں مقبول ہوتے ہیں کتابوں والے نہیں۔“
لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس میں جو خوبیاں ہیں ان کے ذکر میں انھوں نے بخل سے کام نہیں لیا ہے۔ ہر خوبی کا ذکر کیا ہے اور دل سے کیا ہے۔
محمد زماں آزردہ کا خاکہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ کشمیر اور اس کی جمالیات کے حوالے سے بھی ان کا تذکرہ آگیا ہے اور ان کی شاہ خرچی بھی زیر گفتگو آگئی ہے۔ تاہم انھیں یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ انھوں نے اپنا تخلص آزردہ کیوں رکھا۔ ان کا خیال ہے کہ آزردگی تو بس تخلص تک ہے ورنہ ان کے مزاج میں شگفتگی ہی شگفتگی ہے۔ یوں بھی بغیر شگفتگی کے کوئی انشائیہ نگار نہیں ہو سکتا۔پروفیسر آزردہ نے مرزادبیر پرتحقیقی کام کیاتھا ان کی تحقیق کے بارے میں لکھاہے:
” مرزا سلامت علی دبیر پر تحقیقی مقالہ لکھتے وقت لکھنؤ کی گلیوں کی ایسی خاک چھانی کہ خود مرزا دبیر کا سلامت رہنا مشکل ہوگیا۔“
فاروق بخشی کے خاکے میں اشعار سنانے کے ان کے شوق کو خوب دلچسپ انداز میں آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ جملہ ملاحظہ فرمائیں:
”وہ تو بھلا ہو اللہ بخشے پروفیسر قمر رئیس مرحوم کا کہ فاروق کی شاعری سے تنگ آکر اور اس کے ترنم سے بچنے کے لیے فاروق کو راجستھان کے تپتے ہوئے ریگستان میں بھیج دیا ورنہ ہمیں دلی چھوڑنی پڑ جاتی“۔
نعیم انیس کا ذکر انھوں نے معصوم ادیب کہہ کر کیا ہے اور ان کی معصومیت یا سعادت مندی کے حوالے سے این سی ای آر ٹی میں ہونے والی ورک شاپ کی مثال پیش کی ہے۔ لکھتے ہیں:
”بیچارے معصوم نعیم انیس پر تو ترس آرہا تھا۔ اس کے چھوٹے ہونے کا سب اس طرح فائدہ اٹھا رہے تھے جیسے گھر میں سب سے چھوٹے فرد سے اٹھایا جاتا ہے۔ نعیم کی سعادت مندی دیکھنے لائق تھی۔ جی سر جی سر کے علاوہ کوئی آواز ہی نہیں نکلتی…. اگر کلکتہ نہ جاتے تو شاید ڈاکٹر نعیم انیس کا این سی ای آر ٹی والا تصور ہی ذہن میں رہتا“۔
ان خاکوں میں زبان و بیان کی بڑی خوبیاں ہیں۔ کہیں کہیں تلمیح کے بھی نمونے مل جاتے ہیں۔ خواجہ محمد اکرام الدین کے خاکے سے لیے گئے یہ جملے دیکھیں:
”شعبہ اردو میں یہ دوسرے خواجہ آئے تھے۔ پہلے خواجہ احمد فاروقی تھے۔ جب ہم دہلی آئے تو معلوم ہوا کہ دہلی بائیس خواجاو¿ں کی چوکھٹ ہے۔ یعنی دلی میں بائیس بزرگان دین کے مزارات ہیں۔ اردو والوں نے خواجہ احمد فاروقی کو دہلی کا تیئسواں خواجہ کہنا شروع کر دیا۔ اس لیے کہ خواجہ احمد فاروقی نے دہلی میں اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میرے خیال میں خواجہ اکرام الدین اکیسویں صدی میں دہلی کے چوبیسویں خواجہ ہیں“۔
آخری جملے سے خواجہ اکرام الدین کے تعلق سے ابن کنول کے دل میںمحبت کا جو جذبہ ہے وہ عیاں ہو رہا ہے۔ ویسے بھی انھوں نے جگہ جگہ خواجہ اکرام الدین کی تعریف کی ہے اور بجا طور پر کی ہے۔ ان کی خوبیوں کو گناتے ہوئے کہتے ہیں:
” پیدل چلنے اور گاڑی چلانے دونوں ہی کی رفتار تیز ہے۔ طبیعت میں کچھ بے چینی سی ہے۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے بھی چلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ذرا ذرا دیر میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سامنے بیٹھے طلبا بھی احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خواجہ پھر بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی اختلاجی صفت کے سبب متعدد ممالک کا سفر کر چکے ہیں۔ اتنے کلومیٹر کا سفر ابن بطوطہ نے بھی نہیں کیا تھا“۔
”ان کی داڑھی میں ایسی اشتراکیت ہے کہ اس پر کسی مذہب کا لیبل نہیں لگاسکتے۔ فقط لباس کی تبدیلی سے وہ ہر فرقے میں شمار ہوسکتے ہیں۔ یہی ان کا سیکولرازم ہے جو خانقاہوں کا وصف ہے اور جے این یو کی دین ہے۔“
ان خاکوں میں صاحب خاکہ کی ظاہری اور باطنی دونوں شخصیات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
جانے کیوں اسلم حنیف کا خاکہ پڑھ کو مولانا آزاد یاد آگئے۔ جس طرح بہت سے لوگ مولانا آزاد کو ابوالکلام کا بیٹا سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے تھے اسی طرح اسلم حنیف کو بھی پہلی بار دیکھنے والا انھیں اسلم حنیف ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا:
”اسلم حنیف کے حلیے کو دیکھ کر کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوگا کہ یہ گنور کے مشہور ڈاکٹر ہیں۔ اردو کے معروف شاعر و ناقد ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوا ہے کہ ان کے مطب میں ان کی شہرت سن کر کوئی مریض یا ادیب یا شاعر ان سے ملنے کے لیے آیا تو ان سے ہی کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو بلا دو۔ ان کے کہنے کے باوجود بھی یقین نہیں کرتا کہ یہی اسلم حنیف ہیں“۔
اس سلسلے میں انھوں نے جے پور کے بزرگ ادیب ڈاکٹر فراز حامدی کا ثبوت پیش کیا ہے جنھوں نے اسلم حنیف پر ایک کتاب بھی ترتیب دی ہے۔ پہلی بار دیکھنے پر انھیں بھی یقین نہیں آیا تھا کہ یہی اسلم حنیف ہیں۔
خاکہ نگاری کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس شخص کا خاکہ سب سے اچھا ہوتا ہے جس کی شخصیت میں کوئی ”ٹیڑھ“ ہو۔ اس مجموعہ میں جن شخصیات پر خاکے ہیں ان میں سے بعض ہی ”ٹیڑھے“ ہیں لیکن خاکے سب کے اچھے ہیں۔ خاکہ نگاری میں صاحب خاکہ پر تو اظہار خیال کیا ہی جاتا ہے خاکہ نگار بھی ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ اس کی بھی ذات اپنی جھلک دکھاتی رہتی ہے۔ اگر صاحب خاکہ اور خاکہ نگار میں تعلقات، دوستی یا مراسم ہیں اور لکھنے والے کو تحریر پر دسترس ہے تو بیانیے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے وہ خاکے زیادہ مزے دار ہیں جو بے تکلف دوستوں پر لکھے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سینئر حضرات پر لکھے گئے خاکوں میں لطف زبان یا لطف بیان نہیں ہے۔ ان میں بھی ہے لیکن بے تکلفی کے ساتھ ساتھ حفظ مراتب کی بھی کچھ کچھ کارفرمائی ہے۔ قمر رئیس کا خاکہ ہو یا گوپی چند نارنگ کا یا تنویر احمد علوی کا یا اسی قبیل کی دوسری شخصیات کا۔ ان میں بھی بے تکلفی کے جلوے ہیں لیکن صاحب خاکہ اور خاکہ نگار میں ایک ہلکا سا فاصلہ بھی قائم ہے۔ جبکہ بے تکلف دوستوں کے خاکے یوں لگتے ہیں کہ ہم ان کی محفل میں بیٹھے ہوئے ہیں اور سارے مناظر اور واقعات خاموشی سے دیکھ رہے اور لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بیشتر خاکے ایسے ہیں کہ صاحب خاکہ کے علاوہ بھی بہت سی شخصیات کا ذکر آگیا ہے۔خاکوں کوپڑھنے کے بعدان میں شامل بعض فقروں سے قاری دیر تک محظوظ ہوتارہتاہے مثلا:
” سسرال قریب ہونے کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ فائدے تو یہ ہیں کہ جب وہاں کچھ اچھا پکتاہے تو فوراً آجاتا ہے اور نقصان یہ ہے کہ سسرال والے جب دل چاہا ہمیں پکانے کے لیے چلے آتے ہیں“۔
”دہلی کی بسوں کا سفر تو یوں بھی کئی طرح کی آسودگی اور تسکین کا سبب بھی ہوتا ہے۔ اس لیے بھی بہت سے لوگ دہلی میں بس کے سفر کو ترجیح دیتے تھے۔ کار یا ٹیکسی میں کرایے کے علاوہ اکیلے پن کا احساس ہی مار ڈالتا ہے۔“
”میں نے اردو میں اتنا باسلیقہ ادیب نہیں دیکھا۔ ادیب کی تو پہچان ہی اس کے لااُبالی پن سے ہوتی ہے، لیکن بعض ساہوکاروں اور مہاجنوں کی طرح بہی کھاتہ رکھتے ہیں۔“
”کبھی کبھی بڑا تخلیق کار یونیورسٹیوں میں آکر مر بھی جاتا ہے۔ سچی تخلیق نوکری جیسی پابندی میں رہ کر مشکل سے ہوپاتی ہے۔ اچھا ہی ہوا غالب نے دلّی کالج میں نوکری نہیں کی۔©“
”ترقی پسند تحریک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو عجیب صورت حال نظر آتی ہے، اس میں بہت سے سید ملیں گے اور بہت سے مولوی یا جو مولوی بنتے بنتے رہ گئے۔“
”غیبت کے لیے ضروری ہے کہ آدمی بھروسے مند ہو۔ اب تو ایسا وقت آگیا ہے کہ غیبت کرنے کے لیے قابل اعتبار لوگ موجود نہیں ہیں۔“
”آدمی لکھتا اچھا نہ ہو، بس بولتا اچھا ہو تو مقبول ہوجاتا ہے۔ مثلاً مشاعرے والے شاعر جتنے عوام میں مقبول ہوتے ہیں کتابوں والے نہیں۔“
”غالب اور داغ کلکتے کیا گئے کہ ہر اردو بولنے والا سمجھنے لگا کہ وظیفہ بھی وہیں ملے گا اور منی بائی بھی۔“
”ہمارے پیشے میں شاعر یا افسانہ نگار کو ناکارہ سمجھا جاتا ہے، شاعر کو تو گھر میں بھی عزت نہیں ملتی، مختلف القابات سے پکارا جاتا ہے۔ آج کل دنیا میں تنقید کرنے والوں کی قدر ہے۔ ٹیلی ویژن پر بھی وہی نیوز چینل زیادہ دیکھے جاتے ہیں جن میں تُوتُو میں میں زیادہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ زیادہ اُچھالی جاتی ہے۔ “
ان خاکوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ خاکہ نگار نے خود کو بڑا دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ ابن کنول جیسے ہیں ویسے ہی انھوں نے خود کو بھی پیش کر دیا ہے۔ جس طرح انھوں نے دوسروں کے محاسن و عیوب کو بیان کیا ہے اپنے عیوب بھی بیان کر دیے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور چھپ چھپاتے نہیں بلکہ علی الاعلان کیا ہے۔ جس کی وجہ سے تقریباً تمام خاکوں میں ان کی شخصیت کا ایماندارانہ عکس بھی نظر آتا ہے۔ ان خاکوں میں تاریخ اور جغرافیہ بھی ہم قدم ہیں۔ لیکن یہ دونوں موضوعات خشک ہونے کے باوجود ان خاکوں میں اپنی شگفتگی دکھا جاتے ہیں۔ ابتدائی درسگاہ سے لے کر مسلم یونیورسٹی علیگڑھ اور دہلی یونیورسٹی تک کا سفر اور اس سفر میں رابطے میں آئے دیگر ہمسفروں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا ذکر خیر بھی ہے اور انھوں نے بجا طور پر اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ”کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی“ کے حوالے سے اردو دنیا کو ایک نیا اور اچھا خاکہ نگار مل گیا ہے۔ اگر وہ اسی طرح خاکے لکھتے رہے تو عہد حاضر کے صف اول کے خاکہ نگاروں میں ان کا شمار ضرور ہو جائے گا۔
sanjumdelhi@gmail.com-9818195929