صدیقی محمد اویس

نوجوان ! اس لفظ سے عام طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوان وہ ہوتا ہے جس کی عمر لگ بھگ18 سال سے30 یا 35 سال کے درمیان ہو یا پھر کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے طالب علم کو نوجوان سمجھا جاتا ہے وغیرہ۔ بہرحال یہ تو رہا نوجوان کے تعلق سے ایک بنیادی نظریہ جو عام طور پر لوگوں کے درمیان دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اصل میں تو نوجوان کسی بھی ملک یا کسی قوم کا سب سے اہم حصہ ہوتے ہیں، وہ اپنے ملک و ملت کے لئے خام مال ہوتے ہیں، معاشرے میں کوئی بھی انقلاب آتا ہے تو اسکے پیچھے بھی سب سے بڑا ہاتھ نوجوانوں کا ہی ہوتا ہے، بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ نوجوان ہمارے ملک یا ہماری قوم کا مستقبل ہیں۔ آخر ایسا کیوں، نوجوانوں سے اتنی توقعات کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نوجوانی کا دور ہر انسان کی زندگی کاسب سے اہم موڑ ہوتا ہے، جہاں سے اسکی زندگی تبدیل ہوجاتی ہے۔

نوجوانی کے دور میں ہی انسان سب سے زیادہ طاقتور ہوتاہے، نوجوانی کے دور میں ہی انسان کی تمام صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں، اسی دور میں انسان کسی بھی مسئلے پر کھلے ذہن سے غور و فکر کر سکتا ہے اور کسی بھی مسئلے کا حل نکال سکتا ہے۔ ان تمام چیزوں کی بنا پر ہی انسان اپنا مستقبل طے کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی نوجوانوں نے کسی کام کو کرنے کا عزم کیا تو وہ کام ضرور پورا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر دور میں لوگوں کو نوجوانوں سے توقعات ہوتی ہیں۔ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابتدائی دور میں زیادہ تر نوجوان صحابیوں نے ہی اسلام قبول کیا تھا اور آخری سانس تک دین حق پر قائم رہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، صحابہ اکرام کی ایک محفل میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ وہاں موجود تمام صحابیوں سے یہ سوال پوچھتے ہیں اگر میں یہ کہوں کہ اللہ تعالی آپ کی کوئی خواہش پوری کریں گے تو آپ لوگ کیا دعا کریں گے، تو کوئی صحابہ نے کہا کہ میں اللہ سے یہ کمرہ بھر کر سونا مانگوں گا اور پھر اسے دین کی راہ میں خرچ کروں گا، پھر دوسرے صحابہ کہتے ہیں کہ میں اللہ سے بہت سے ہیرے جواہرات مانگوں گا اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں گا، پھر تمام صحابہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیا مانگیں گے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بہت پیارا جواب دیتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ میں اللہ سے معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان جیسے نوجوان مانگوں گا جنہیں میں اسلام کے لئے صرف کرسکوں۔ اس واقعے کے ذریعے بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں ہر دور میں لوگوں کو نوجوانوں سے کتنی امیدیں و توقعات ہوتی ہیں۔ یہاں جن نوجوان صحابہ کرام کا ذکر کیاگیا ہے ان صحابہ کا اسلام کی دعوت کو عام کرنے میں بہت غیر معمولی رول رہا ہے۔

اس کے علاوہ ماضی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان طبقہ معاشرے کا اہم ترین طبقہ ہے۔ بہرحال یہ تو رہا نوجوانوں کے تعلق سے انسانوں کے درمیان ایک تصور لیکن اس کے علاوہ اللہ تعالی کے نزدیک ایک صالح نوجوان کی کافی اہمیت ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نوجوان جس کی جوانی اللہ تعالی کی عبادت میں گزری ہو تو اس نوجوان کو اللہ روز محشر اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو جوانی کی عبادت کتنی پسند ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آج ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے کیا مسائل ہیں۔ ملت اسلامیہ کو بھی اپنے نوجوانوں سے بہت سی امیدیں ہیں، لیکن آج کے نوجوانوں کے معاملات یہ ہیں کہ وہ دنیا سے بالکل کٹ کر اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نوجوان کالج یا کیمپس میں تعلیم حاصل کر رہاہے تو اسکا واسطہ صرف تعلیم سے ہوتا ہے یا پھر کوئی نوجوان کسی دفتر میں ملازمت کر رہاہے تو اسکا واسطہ محض اپنی ذاتی زندگی سے ہے، پھر کئی نوجوان ایسے ہیں جو صرف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں انہیں کسی سے کوئی سروکار نہیں، وہ اپنے معاشرے کے مسائل سے بالکل ناآشنا ہیں، انہیں یہ نہیں معلوم کہ ملک میں کیا چل رہاہے، وہ یہ نہیں جانتے کہ قوم کے حالات کیسے ہیں۔ یہ تو تھے وہ نوجوان جو محض خودی تک محدود رہتے ہیں، ان کے علاوہ ملت میں کچھ ایسے نوجوان بھی ہیں جو قوم کے مسائل پر، حالات حاضرہ پر، ایشوز پر سوچتے ہیں لیکن صرف وقتی طور پر اور وہاٹس ایپ اور فیس بک تک ہی سمٹ کر رہ جاتے ہیں، اس سے آگے بڑھ کر اپنی آواز کو بلند نہیں کرتے، اپنی بات کو لوگوں کے سامنے کھل کر پیش نہیں کرتے، ان تمام چیزوں کے علاوہ ہمارے نوجوانوں میں ایک کمی یہ بھی ہے کہ وہ جلدی کسی سے روبرو نہیں ہوتے، جلدی کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ یا پھر کچھ اور نوجوان ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں اپنی عبادت کرتے ہیں لیکن یہ نمازیں یہ عبادات محض مسجد تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہیں، پھر جب وہ تنہائی میں ہوتے ہیں تو فحاشی و عریانی کے کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

مذکورہ بالا جو بھی مسائل بیان کئے گئے ہیں ان تمام مسائل کو نوجوانوں کو خود ہی سمجھنا چاہیے اور غور و خوض کرنا چاہئے کہ ملک و ملت کو ان سے کتنی امیدیں ہیں۔ ان تمام مسائل پر قابو پانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اگر نوجوان چاہیں تو وہ خود ان تمام مسائل پر قابو پا سکتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ کالجوں میں، کیمپس میں، یونیورسٹیوں میں، دفتروں میں، اپنے ساتھیوں میں اور جہاں مناسب سمجھیں وہاں حالات پر گفتگو کریں، قوم و ملت کےمسائل کو زیر بحث لائیں، اگر کہیں ظلم ہو رہا ہو تو اس ظلم کے خلاف بے خوف اپنی آواز کو بلند کریں، معاشرے کی عام برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں وغیرہ۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب کبھی ہم حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں محض چیلنجز نظر آتے ہیں اور ہم پوری گفتگو کو منفی انداز میں لیتے ہیں۔ ہمیں ہرگز ایسا نہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ حالات پریشانیوں کے ساتھ ساتھ مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ جو نوجوان یا لوگ ماحول سے مایوس و خوفزدہ ہوجاتے ہیں تو انکے لئے اقبال کہتے ہیں کہ ”نہ ہو ماحول سے مایوس دنیا خود بنا اپنی /جگر میں حوصلے اور حوصلوں میں جان پیدا کر“حالات سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا چاہیے اور مواقعوں کی تلاش کرتے رہنا چاہیے۔

اس کے علاوہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں اور زیادہ سے زیادہ حکومتی اداروں میں، سماجی و سیاسی سائنس کے میدانوں میں، ریلوے انتظامیہ میں، پولیس انتظامیہ میں، قانونی اداروں میں، تجارت کے میدان میں اور کئی مختلف شعبہ میں اپنا مستقبل بنانے کی کوششیں کریں تا کہ مستقبل قریب میں ملک و ملت کو ایسے اعلی تعلیم یافتہ اور با صلاحیت افراد مل سکیں جو انتظامیہ کی باگ دوربالکل صحیح انداز میں سنبھالیں اور ان تمام کاموں کے لئے نوجوان اللہ تعالی سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے پر توجہ دیں۔ نوجوان قرآن کریم کو حسب معمول پڑھیں نہ صرف پڑھیں بلکہ سمجھ کر پڑھیں۔ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ان تمام کاموں کے نتیجے میں ہمارے نوجوان ان شاء اللہ عمل صالح کی طرف بڑھیں گے، انکی جوانی بے داغ ہوجائے گی، انکے کردار سنورنے لگے گیں، لیکن جب تک نوجوان ان تمام باتوں پر کثرت سے عمل نہیں کریں گے تب تک شیطان انہیں برائی پر اکساتا رہے گا۔ اسی لئے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے برائی والے نفس کی بات نہ سنیں اور اسے کمزور بنادیں تا کہ اچھائی والا نفس مضبوط سے مضبوط بنتا چلا جائے۔
siddiquimowais@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *